یہ کون اہلِ فلسطیں کا خوں بہاتے ہیں؟ ۔۔۔
بتاؤ کون ہے جارح زمینِ اقدس پر؟
بتاؤ کون ہے غاصب بنامِ نسل و نسب؟
لہو ترنگ یہ کس نے بنائی ارضِ غزہ؟
یہ کون مسجدِ اقصیٰ پہ حملہ آور ہیں؟
یہ کون اہلِ فلسطیں کا خوں بہاتے ہیں؟
“صلیبی جنگوں” کے نقشے یہ پھر بناتے ہیں
لہو بہاتا ہے مظلوم و بے کساں کا کون؟
یہ کس نے پھول سے بچّے کو روند ڈالا تھا؟
یہ کس نے پاؤں میں روندا قرارداوں کو؟
یہ کس نے ٹھوکریں ماریں ہیں زخمی عورت کو؟
یہ کس نے شہرِ غزہ کو جلا کے راکھ کیا؟
یہ کس نے گولے گراۓ نہتّے لوگوں پر؟
اِسے میں موسیٰؑ کی اُمت کہوں تو کیسے کہوں؟
یہ بھیڑئیے ہیں، اِنہیں میں بشر کہوں کیسے؟
یہ امنِ عالمِ انساں کو کر رہے ہیں خراب
کوئی تو روکے یزیدانِ عصرِ حاضر کو
کوئی تو بازوۓ ظالم مروڑ کر رکھ دے
غزہ کے لوگوں پہ پانی کو بند کرنے لگے
خدا را خونِ بشر کو نہ ایسے بہنے دو
لہو یہود کا ہو یا کہ ہو یہ مسلم کا
لہو بہانا تو تذلیلِ خونِ انساں ہے
حقوقِ حضرتِ انساں کے دعویدارو سنو
جو خون بہتا ہے، کِھلتا ہے برگِ لالہ میں
براۓ امن و اماں روکو سیلِ خونیں کو
کہاں پہ سویا ہوا ہے یہ عالمِ اسلام؟
کہاں پہ رقص کناں ہیں ملوکِ جاہ پرست؟
اگر ہیں امن کی خواہاں یہ غرب کی اقوام
تو پھر یہ دستِ ستم کیش کو یہاں روکیں
وگرنہ قہرِ خدا کا یہ انتظار کریں
کلام :ڈاکٹر مقصود جعفری (اسلام آباد)