ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 37
ہم بھی کھڑ ے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح
یہی گفتگو ان دوستوں کے ساتھ گاڑ ی میں دوران سفر میں نے ایک دوسرے پہلو سے کی تھی۔ میں نے جس بات کی طرف توجہ دلائی تھی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دور حاضر میں دین حق کی تعلیمات کو ہر طرح کے اضافوں اور تحریفات سے پاک کر کے ایمان و اخلاق کی دعوت کو بالکل کھول کر رکھ دیا ہے ۔ اس کے ساتھ انفارمیشن ایج شروع کر کے ابلاغ حق کے نئے مواقع پیدا کر دیے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں پیدا ہونے والے عظیم ترین مواقع میں سے ایک ہے ۔ا س سے قبل جب بھی دین حق کی دعوت دی جاتی تھی، یہ دعوت دینے والوں کو زندہ آگ میں جلادیا جاتا تھا، سولی پر لٹکادیا جاتا تھا، ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے تھے یا کم از کم اپنے وطن چھوڑ کر دربدر ہونا پڑ تا تھا۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہو ا ہے کہ دین حق کے ماننے والے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی غرض ہر پہلو سے کمزور ہونے کے باوجودکسی قسم کے ظلم و ستم کا سامنا کیے بغیردین حق کی دعوت دے سکتے ہیں ۔ اس کے بعد لوگوں کی مرضی ہے کہ مانتے ہیں یا نہیں ۔ یہ ان کا اور ان کے پروردگار کا معاملہ ہے ۔ خدا زبردستی کسی کو اپنابندہ نہیں بنانا چاہتا۔ جنت کا سودا وہی خریدے گا جو اپنی آزادانہ مرضی سے اپنی آزادی سے خدا کے سامنے دستبردار ہوجائے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دین حق کی دعوت لوگوں تک پہنچانا اصلاً نبیوں کا کام ہے ۔ اس کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہوجائے تو اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس کام کے لیے وقف کر دیں ۔مگر بدقسمتی سے بیشتر لوگ اپنی خواہشات اور تعصبات کے اسیر ہیں ۔اس لیے وہ اس عظیم موقع کو پہچاننے اور اس کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں ۔ دعوت دین میراث ہے۔یہ اعزاز اتنا بڑ ا ہے کہ لوگوں کو ذرا سا بھی اندازہ ہوجائے تو اس کام میں شریک ہونے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیں ۔ جو اہل دل ہیں وہ تو آج بھی سراپا فریاد ہیں کہ خدا انھیں اس کام کے لیے قبول کر لے ۔ وہ سراپا امید ہوتے ہیں کہ ان کے گنا ہوں کے باوجود اللہ تعالیٰ انھیں قبول کر کے ان اہل وفا میں شامل کر لے ۔ بقول مجروح سلطان پوری :
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑ ے ہوئے ہیں گنہہ گار کی طرح
عام آدمی اور دعوت دین
میری تحریروں میں اکثر دعوتِ دین کا ذکر ہوتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر شخص سارے کام چھوڑ کراس کام میں لگ جائے ۔قومی اور عالمی سطح پر انذار کرنا عام آدمی کی نہیں اہل علم کی ذمہ داری ہے جو پوری زندگی اس کام کے لیے لگادیتے ہیں ۔ ان اہل علم کو دین کی گہری بصیرت حاصل کرنے کے بعد ہی اس کام کے لیے اٹھنا چاہیے ۔ عام آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کی نصرت کرے ۔ ان کی کتابیں اور تحریریں پھیلائے ۔عملی پہلوؤں سے ان کے ساتھ تعاون کرے ۔ اس طرح یہ کام ایک ٹیم ورک بن جاتا ہے ۔
دنیا میں کام تو اس ٹیم ورک کے نتیجے میں ہو گا، مگر جہاں تک اجرِآخرت کا تعلق ہے تو ضروری نہیں کہ عالم کو زیادہ اجر ملے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عام شخص کو اس کے اخلاص کی بنا پر عالم سے زیادہ اجر مل جائے ۔اس کے علاوہ ایک عام آدمی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے حلقے میں حق کی تلقین کرے اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہے ۔خیر وشر کا شعور عام کرے ۔ اپنے گھروالوں اور اپنی ذات کے بارے میں حساس رہے ۔ یہی فرد کی دعوت اور اصل ذمہ داری ہے ۔
روح کی غذا
ہم شام تک گھر پہنچے ۔فوراً ہی الیاس صاحب کے ہاں جانا تھا۔ جن کے ہاں ایک دعوت ، کھانے کی متعدد ڈشیں اور بہت سارے احباب منتظر تھے ۔ چنانچہ کپڑ ے بدل کر وہاں روانہ ہوگئے ۔ وہاں پہلے احباب کے ساتھ سوال و جواب کی نشست ہوئی ۔ احباب نے بڑ ے اچھے سولات کیے ۔ اس کے بعد پھر لذتِکام و دہن کی محفل شروع ہوئی۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
کھانے یہاں بھی اور باقی تمام مقامات پر بہت اچھے تھے ۔تاہم میری ناقص رائے یہ ہے کہ مہمانوں کے ا کرام میں ایک دو ڈشیں بنالی جائیں ، مگر اس سے زیادہ کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے ۔کیونکہ اول اس سے خواتین پر بہت بوجھ پڑ تا ہے ۔ خاص کر آسٹریلیا جیسے ملکوں میں جہاں گھریلوملازمائیں نہیں ہوتیں ۔ جس کے نتیجے میں اول تا آخر سارا کام خواتین ہی کو کرنا پڑ تا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اہل دین کی محافل کو اصلاً کھانے کی محفل نہیں ہونا چاہیے ۔یہ محفلیں روح کوغذا پہنچانے کا ذریعہ ہونی چاہئیں ۔یہاں سے انسان کو معرفت رب اور جنت کے حصول کی خواہش لے کر اٹھنا چاہیے ۔ساری توجہ اسی پر رہنی چاہیے ۔
دعوت اور کھانے کا سب سے زیادہ نقصان میزبان کو ہوتا ہے جو اتنا اہتمام بھی کرتا ہے اور جس مقصد کے لیے دین کا کوئی طالب علم آتا ہے یعنی دین سیکھنے سکھانے کا عمل، انتظام وانصرا م کی وجہ سے اہل خانہ کا سب سے کم دھیان اس پر رہتا ہے ۔ یہ ایک بڑ ا نقصان ہے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 38 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں