پولیس میں خود احتسابی نظام موثر بنانے کی ضرورت

پولیس کا بنیادی کام عوام کی حفاظت اور قانون کا نفاذ ہے، لیکن جب پولیس ہی جرم کا ذریعہ بن جائے تو معاشرے میں خوف اور عدم اعتماد کیسے پیدا نہ ہو؟ پولیس کلچر نے عوام میں تحفظ کا احساس ہی ناپید کر دیا ہے لوگ اپنی فریاد لے کر تھانے میں جانے سے کتراتے ہیں او ر اگر کہیں پولیس کا ناکہ لگا ہو تو راہگیر حضرات متبادل راستے کو اپنانے میں ترجیح دیتے ہیں۔ چند روز قبل اسی طرح کا ایک واقعہ ماڈل ٹاؤن کے نواحی علاقے کوٹ لکھپت میں بھی پیش آیا جہاں نوجوان خواتین اور کچھ پولیس اہلکاروں پر مشتمل ایک گینگ گھناؤنے کاروبار میں ملوث پایا گیا جو مبینہ طور پر بلیک میلنگ کے ذریعے اغوا، تشدد اور بھتہ خوری میں ملوث تھا۔ایس پی اخلاق اللہ تارڑ نے اس گینگ کے بارے بتایا ہے کہ آن لائن کاروبار کرنے والے ایک نوجوان کے گینگ کا شکار ہونے کے بعد 6 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 3 پولیس اہلکار اور 3 خواتین شامل ہیں۔ اس گینگ کو تین پولیس اہلکار چلا رہے تھے جو لوگوں کو پھنسانے کے لیے نوجوان لڑکیوں کا استعمال کر رہے تھے۔ایس پی ماڈل ٹاؤن کے مطابق ماڈل ٹاؤن کے رہائشی نوجوان کامران عباس کی ٹک ٹاک کے ذریعے ایک لڑکی سے دوستی ہوئی تھی، جس نے کامران کو چندرائی روڈ پر ایک جگہ ڈیٹ کے لیے بلوایا۔جیسے ہی نوجوان مذکورہ مقام پر پہنچا تو لڑکی اسے ایک کوارٹر میں لے گئی جہاں اس کے 4 مسلح پولیس اہلکار ساتھی پہلے سے ہی ’شکار‘ کا انتظار کر رہے تھے۔ملزمان نے نوجوان کو بندوق کی نوک پر پکڑ کر کوارٹر میں حراست میں لے لیا جہاں انہوں نے بندوق کے بٹوں، مکوں اور لاتوں سے اسے بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا۔ملزمان نے تشدد کا ایک ویڈیو کلپ بھی ریکارڈ کیا جو بعد میں سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس میں نوجوان کو روتے ہوئے دکھایا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ اسے رہا کیا جائے اور وہ جو چاہیں لے لیں۔ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ نوجوان اپنے اغوا کاروں سے التجا کر رہا ہے کہ اگر اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو اس واقعے کے بارے میں پتا چلا تو اس کا کیریئر اور ساکھ داؤ پر لگ جائے گی، لیکن مسلح افراد اسے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ گینگ نوجوان ماڈلز، اداکاراوں اور خواتین کے ذریعے متعدد بزنس مین، معروف شخصیات اور بااثر افراد کو پھانس کر ان سے رقم بٹور چکا ہے۔واضح رہے کہ لاہور میں یہ پہلا گینگ نہیں ہے۔ اسی طرح کا ایک معاملہ چند روز قبل لاہور کے پوش علاقے ماڈل ٹاؤن برکت مارکیٹ میں بھی پیش آیا تھا جہاں باوردی پولیس اہلکاروں نے ایک ڈاکٹر مختار حسین کو اسلحہ کے زور پر اغواء کرنے کے بعد پانچ لاکھ روپے تاوان وصول کیا تھا۔اسی طرح لاہور میں حال ہی میں تعینات ہونے والے ایک ایس ایچ او نے گزشتہ سال ضلع شیخوپورہ سے ایک شہری کو اغواء کرنے کے بعد اس سے 12لاکھ روپے تاوان وصول کیا تھا جس پر اس کے خلاف تھانہ فیروز والا میں اغواء برائے تاوان کا مقدمہ درج ہوا تھا اسی طرح ڈیفنس کے ایس ایچ او سجاد کو منشیات فروشوں سے بھاری رقم وصول کرنے پر،فیصل ٹاؤن میں ایس ایچ او سلمان اکبر اور کانسٹیبل مقبول شاکر کو اختیارات سے تجاوز کرنے اور مبینہ رشوت وصول کرنے پر مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کیا گیا،جبکہ کچھ عرصہ قبل شاہدرہ سے ایس ایچ او صغیر میتلا کوبھی منشیات فروشوں سے بھاری رشوت لینے پر معطل اور گرفتار کیا گیا۔موجودہ ایس ایچ او ڈیفنس سی محمد رضا سمیت اس وقت بھی شہر میں دو درجن سے زائد ایسے ایس ایچ اوز تعینات ہیں جو سنگین الزامات میں معطل اور کلوز لائن رہ چکے ہیں جبکہ شہر کے کئی ڈی ایس پیز بھی مبینہ کرپشن میں ملوث ہیں۔سی سی پی او لاہور بلا ل صدیق کمیانہ کی ہدایت پر ڈی آئی جی آپریشنز کی جانب سے کرپٹ تھانیداروں کے خلاف کارروائیاں انتہائی خوش آئند ہیں لیکن دوسری جانب کرپٹ اور بری شہرت کے حامل پولیس افسران کی تعیناتیاں لمحہ فکریہ بھی ہیں۔دوسری جانب ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سید زیشان رضا کی ہدایت پر ایس ایس پی انوسٹی محمد نوید اور شہر بھر کے تمام ایس پیز، ایس ڈی پی اوز اور انچارج انوسٹی گیشنز کو متحرک اور الرٹ کردیا گیا ہے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کی ہدایت پر ڈی آئی جی انوسٹی گیشن نے شہر بھر کے تمام انوسٹی گیشن افسران اور اہلکاروں کو سختی سے کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے شکایت ملنے کی صورت میں کسی کو معاف نہ کرنے کی وارننگ بھی دی گئی ہے جس سے انوسٹی گیشن کی کارکردگی بہتر بھی ہوئی ہے اور انوسٹی گیشن پولیس نے چیلنج سمجھے جانے والے کئی مقدمات جن میں ستوکتلہ میں قتل ہونے والے صحافی عرفان خالد،ہربنس پورہ میں خاتون شکیلہ سمیت درجن سے زائد قتل کے واقعات میں ملوث ملذمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ آج ڈی آئی جی عمران کشور سمیت متعدد افسران کو گریڈ 20 میں ترقی ملنے کا امکان ہے