فیصلے سنانے کی مشروط اجازت

فیصلے سنانے کی مشروط اجازت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے مقدموں کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیدی۔آئینی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 85 ملزموں میں سے جن کو رعایت مل سکتی ہے اُنہیں رہا کر دیا جائے اور جن کو سزا دینا مقصود ہے اُن کا فیصلہ کر کے جیل منتقل کیا جائے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رُکنی آئینی بینچ نے دیگر تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کر کے اس کیس کو سنا اور عبوری فیصلہ سنایا۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ اُمید ہے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ جنوری میں مکمل ہو جائے گا۔ کیس کی سماعت کے دورانِ ملزموں کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوجی عدالتوں میں سزا کی حتمی منظوری آرمی چیف دیتے ہیں، ایسا شخص جس نے کیس کا ٹرائل سنا ہی نہ ہو وہ کیسے حتمی منظوری دے سکتا ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کی زیر حراست افراد کافی وقت گزار چکے ہیں، اُنہیں اب سویلین عدالتوں میں منتقل کر دینا چاہئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 103 میں سے 20 افراد رہا ہو گئے تھے جبکہ دو مزید ملزموں کو شامل کیا گیا یوں اِس وقت فوج کی زیر حراست 85 افراد ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جن دفعات کو کالعدم کیا گیا اُن کے تحت ٹرائل کا کیا ہو گا جس پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے والے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پہلے اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر شخص کو اُس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اِس پہلو کوبھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973ء کے آئین سے پہلے بنا تھا۔ وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابی کی طرف نشاندہی کی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں عدالتی فیصلے کی بے توقیری سے منع کیا تو خواجہ حارث نے معذرت کر لی۔سپریم کورٹ میں اِس معاملے پر خاصی بحث ہوئی، وکیلوں نے اپنے اپنے دلائل دئیے جس پر جج صاحبان نے ریماکس دئیے۔سپریم کورٹ نے 12 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی حکومت سے گذشتہ سال فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات سے متعلق نو اور 10 مئی کو درج ہونے والی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کی تھیں۔اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ فی الحال تو ان کے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی بتادیں،اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا تمام تفصیلات اس دن صبح ہی موصول ہوئی تھیں وہ تفصیلات متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرائیں گے۔ سماعت کے اختتام پر آئینی بینچ نے عبوری فیصلہ دے دیا اور اپنے حکم نامے میں لکھا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف ہائیکورٹوں میں اپیل کا حق انٹرا کورٹ اپیلوں کے فیصلے تک معطل رہے گا، ہائیکورٹس میں اپیل کی مدت حتمی فیصلے کے بعد شروع ہو گی۔ 

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نو دسمبر کو فوجی عدالتوں کو کیسوں کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ روز کے لیے ملتوی کر دی تھی۔اُس سماعت کے دوران وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین پر بھی لاگو ہوتا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ وہ سویلین کی الگ قسم ہوتی ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتی ہے جس پرخواجہ حارث نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ سویلین کی کیٹیگری ہی کی بات کرتا ہے لیکن جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ کیس آرمی ایکٹ کی اُس شق کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکے ہیں لہٰذا فوجی عدالتوں کو ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے، فوجی عدالتوں کو کیس کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کا مطلب فوجی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہو گا تاہم اب آئینی بینچ نے سزا سنانے کا عبوری اور مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کیس کی سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 9 مئی 2023ء کو ملک بھر میں جو فساد برپا ہوا تھا اِس کے بعد بے شمار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن پر ہنگامہ آرائی میں ملوث ہونے کے الزامات تھے۔بیشتر افراد کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تھا چونکہ معاملہ فوجی تنصیبات پر حملے کا تھا تو اُن پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانا طے پایا۔ کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا اورجسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023ء میں پانچ رکنی بینچ نے یہی فیصلہ بھی دے دیا۔ وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے اِس فیصلے کو چیلنج کیا اور چھ ججوں کے بینچ نے 13دسمبر 2023ء کو پانچ ایک کی اکثریت سے فیصلہ معطل کر دیا۔انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے اسے تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔رواں سال مارچ میں سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔

اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ ملزموں کے مقدمات انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں سے ملٹری کورٹس میں منتقل کیے گئے تھے، ایسا نہیں کہ اِس سے پہلے کبھی کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہوا، ٹرائل بھی ہوئے اور فیصلے بھی سنائے گئے۔ نو مئی کے واقعات میں مبینہ طور پر ملوث پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں روکنے کی خاطر عدالت کا رُخ کیا گیا۔ اِس سے پہلے عدالت نے مقدمے کے حتمی فیصلے تک ملٹری کورٹس کو ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت تو دی تھی لیکن سزا سنانے سے روک دیا تھا جس کی وجہ سے مذکورہ ملزمان کے معاملات لٹک رہے تھے۔ اب بھی آئینی بینچ نے حالیہ عبوری فیصلے میں ملٹری کورٹس کی سزاؤں کو حتمی فیصلے سے مشروط کر دیا ہے تاہم اِس عبوری فیصلے سے یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ جو ملٹری کورٹس کی نظر میں قصور وار ہے اُسے سزا سنائی جائے گی اور بے گناہوں کو رہائی مل جائے گی۔ معاملات کو التواء کا شکار ہوئے ڈیڑھ سال کے قریب ہو چکا ہے، اِنہیں قانونی و آئینی طریقے سے آگے بڑھنا چاہئے۔  

مزید :

رائے -اداریہ -