آئی جی پولیس کیا عمران کشور کو پروموشن دلوانے میں اپنا کردار ادا کرینگے؟

  آئی جی پولیس کیا عمران کشور کو پروموشن دلوانے میں اپنا کردار ادا کرینگے؟
  آئی جی پولیس کیا عمران کشور کو پروموشن دلوانے میں اپنا کردار ادا کرینگے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سال 2015 کی بات ہے کہ مشتاق سکھیرا صاحب آئی جی پولیس پنجاب اور ایک ڈی آئی جی عہدے کے آفیسر جو لاہور پولیس کے سربراہ تھے سنٹرل سلیکشن بورڈ کا انعقاد ہورہا تھا اور سی سی پی او لاہور جو ڈی آئی جی عہدے کے آفیسر تھے کانام گریڈ 21میں جانے والوں میں شامل تھا۔مشتاق سکھیرا نے بطور آئی جی پولیس پنجاب بورڈ میں شرکت کے دوران ان کی سخت مخالفت کی۔دوران بورڈ مشتاق سکھیرا نے مبینہ طور پر الزام لگاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس ڈی آئی جی نے مبینہ طور پر کرپشن کرکے ضلع جھنگ میں 56 مربع زمین حاصل کرلی ہے۔ اسطرح لاہور پولیس کے وہ سی سی پی او ”پروموٹ“ نہ ہونے کے ساتھ سپر سیڈ بھی ہو گئے جیسے ہی مشتاق سکھیرا لاہور پہنچے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ان کے ساتھ سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی اور کہا کہ سی سی پی او لاہور کی پروموشن چاہیے اگر آپ اسے پرموٹ نہیں کرواسکتے تو آپ کو آئی جی پولیس رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے فوری واپس جائیں اور بورڈ کو ریویو کروایا جائے جس پر مشتاق سکھیرا صاحب واپس گئے اور اگلے دن جب بورڈ کا ریویو عمل میں لایا گیا تو مشتاق سکھیرا صاحب جو ایک دن قبل جس ڈی آئی جی کی سخت مخالفت میں بول رہے تھے کہنے لگے میں نے چیک کروالیا ہے اس ڈی آئی جی کی ذاتی زمین شہری حلقے میں آگئی تھی انہوں نے اسے فروخت کرکے مبینہ طور پر 56 مربع خریدی ہے اس وقت کے چیئرمین بورڈ غالباً کوئی خٹک نام کے تھے ہنس پڑے اور کہنے لگے سکھیرا صاحب چیک کرلیں زمین کہیں انارکلی میں آگئی ہو گی اس طرح سب نے قہقہہ لگایا خیر اس ڈی آئی جی کو گریڈ 21 میں پروموشن دیدی گئی۔اب ایک انتہائی پیشہ وارانہ مہارت کے حامل پولیس آفیسر ڈی آئی جی ایڈمن لاہور عمران کشور نے بھی گریڈ 20 میں پروموشن نہ ہونے پر استعفیٰ دے رکھا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی اور زیادتی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اظہار ہمددری کے لیے یوں تو پنجاب پولیس کے بہت سارے افسران ان کے گھر پہنچے ہیں ان میں لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ اور آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور بھی شامل ہیں اور انہیں جھوٹی طفل تسلیاں دی جارہی ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں استعفیٰ واپس لے لیں جلد ہی آپ کی پروموشن کا حل بھی نکال لیں گے۔لیکن دوسری جانب عمران کشور کا کہنا ہے کہ ’اپنی سروس کے سخت حقائق کے بوجھ تلے میں پولیس سروس آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔متعدد اضلاع کی پولیس کمانڈ کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے لاہور میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی سخت ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ’میں نو مئی کی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا سربراہ بھی رہا اور اب ڈی آئی جی ایڈمن کے فرائض بھی سر انجام دئیے، میں نے اپنے حلف کی پاسداری کی، جس کی مجھے ذاتی طور پر بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔اس بھاری قیمت نے مجھے کئی ایسے سوالوں میں مبتلا کر دیا جن کے جواب میرے پاس نہیں ہیں۔ اور ان سوالوں کی بنا پر میرے اندر غیراطمینان بخش خلش پیدا ہو گئی،کہ اس صورتحال نے مجھے اس دوراہے پر کھڑا کر دیا کہ شاید میری سروس کی اب ریاست کو ضرورت نہیں رہی۔ جس وجہ سے میرا سروس سے رشتہ کمزور ہو گیا جو کبھی میرا مضبوط سہارا تھا۔ پنجاب پولیس آج سخت گروپنگ کا شکار دیکھائی دیتی ہے جس سے ادارہ ڈی مورال ہورہا ہے اگر سابق آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا اس وقت کے ڈی آئی جی کو بورڈ میں رجیکٹ ہونے کے باوجود پروموشن کروا سکتے ہیں تو عمران کشور جس کی اس ادارے کے لیے بے شمار قربانیاں بھی ہیں ان کی پروموشن کیوں نہیں ہوسکتی آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے ذاتی طور پر بات کرکے ڈی آئی جی عمران کشور کی پروموشن کروانی چاہیے اور یہ ثابت کرنا چاہیے کہ پنجاب پولیس میں کہیں کوئی گروپنگ نہیں ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ عمران کشور نے جو کیا ہے یہ ایک تاریخی اقدام ہے یہ کر گزرنا ہر پولیس آفیسر کے بس کی بات نہیں یہ ایک دلیر، دبنگ، تگڑا اور اللہ پر تقوی رکھنے والا ہی پولیس آفیسر کر سکتا ہے۔ اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -