ماہ صیّام میں غذا سے پرہیزگاری کیسے کریں ؟

یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان میں جو بھی غذاملتی ہے اس میں ملاوٹ اسقدر زیادہ ہوتی ہے الامان الحفیظ۔ ایک تولوگ براہ راست ملاوٹ کرتے ہیں جیسا کہ دودھ،شربت،گھی ودیگر خوردنی اجناس دوسرا اب کھادوں کی وجہ سے سبزیا ں اور پھلبھی آلودہ کردئییجاتے ہیں ۔ماہ رمضان میں مہنگائی کا طوفان اپنی جگہ، ناقص اشیائے خوردنی الگ مسئلہ ہیں ۔ایسے میں روزہ داروں کو خاص طور پر گرمی کے موسم میں طویل روزہ کے بعد انتہائی مناسب غذ ا کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سارا دن غذاور پانی سے محروم رہنے والے بدن کو مناسب اور متوازن غذا مل سکے ۔ کسی غریب کے لئے تو متوازن غذا بھی خواب ہے۔ماہ رمضان میں وہ کچوریاں پکوڑے سموسے کھا کر گزارہ کرلیتے ہیں ،پینے میں بھی انہیں وہ مشروبات دستیاب نہیں ہوتے جو غذائی اعتبار سے مناسب ہوں اور بدن کی نمکیات و توانائی کو بحال کرسکیں ۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ دودھ سوڈا ،نباتاتی مشروبات اور شکنجبین کو ترجیح دیں ۔اب جیسا کہ فوڈ اتھارٹی نے بھی اعلان کردیا ہے اور ایسے مشروباتی پاوڈرز کے بارے بتا بھی دیا ہے کہ یہ مصنوعی اجزا سے بنے ہوئے ہیں ،ان کو خالص فروٹ کا رس نہ سمجھا جائے تو خاص طور پر ماہ رمضان میں ایسے مشروبات پینے سے گریز کرنا چاہئے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے مشروباتی پاوڈرز یورپ ودیگر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی دستیاب ہوتے ہیں لیکن ان کی غذائی کوالٹی بھی مکمل ہوتی ہے ۔جبکہ پاکستان میں ساشوں میں بکنے والے پاوڈرزنما مشروب خطرناک امراض کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔عام دنوں میں بھی انکو پینے سے گریز کرنا چاہئے ،رمضان المبارک میں جب کہ بدن کو خالص توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ،یہ مصنوعی اجزا سے تیار کردہ مشروب گردوں ،جگر اور معدے کی کارکردگی خراب کردیتے ہیں ۔
افطار کے بعد بدن کو ڈی ہائیڈریشن کے مضر اثرات سے بچانے کے لئے پانی کا استعمال وقفہ وقفہ سے کرتے رہنا چاہئے۔سونے سے پہلے تک کم از کم چھ گلاس پانی تو پی لینا چاہئے۔اس میں زیادہ تر گلاس سادہ پانی کے ہونا چاہئیں۔
افطاری کے وقت زیادہ تر لوگ کھانے میں اعتدال کھو بیٹھتے ہیں اور میٹھے کا زیادہ استعمال کرجاتے ہیں۔میٹھا زیادہ لینے سے باڈی کا میٹابولزم خراب ہوجاتا ہے اور جسم و دماغ وہ فوائد جو روزہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں زیادہ میٹھا کھانے سے انہیں حاصل نہیں کرپاتے ۔
رمضان المبارک میں پکوڑوں اور سموسوں کے بغیر افطاری نامکمل سمجھی جاتی ہے ۔میں نے ملک سے باہر کئی بار ماہ رمضان کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ وہ لوگ ایسی چٹ پٹی چیزوں سے افطار نہیں کرتے ۔یہ بری عادت صرف ہم پاکستانیوں میں پائی جاتی ہے جو افطاری میں کھجور سے زیادہ پکوڑے کو اہمیت دیتے ہیں۔ماہ رمضان میں سموسے پکوڑے اور پراٹھے ایسی غذا ہیں جو معدہ کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔اگر ایسی چیزوں کو ہفتہ میں ایک دوبار کھا کر سواد پورا کرلیا جائے تو خیر ہے لیکن سحری میں پراٹھا ،افطاری میں سموسہ پکوڑا وغیرہ انتہائی خطرناک عادات کی نشانی ہے جو بعدازماہ رمضان بھی اپنے برے اثرات چھوڑتی ہیں۔ماہ رمضان میں گھی ،مصالحہ سے خاص طور پر اجتناب کیا جائے تو اس سے جہاں روزے کے روحانی فوائد حاصل ہوں گے وہاں اعضائے انسانی کو پورے سال کے لئے بہترین حالت میں آنے کا بھی موقع ملے گا۔ماہ رمضان میں ریشہ دار غذائیں انتہائی مفید ثابت ہوتی ہیں ۔پھلوں میں کافی ریشہ ہوتا ہے اسلئے افطار کے وقت خاص طور پر پھلوں اور کھجور کا ستعمال کرنا چاہئے ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔