چار سہولت کار قتل

اس سے قبل شائع ہونیوالی کرائم ڈائری میں سرکاری ہسپتالوں میں بداخلاقی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تھا جس کے فالو اپ میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ لیکن جس پر اب لکھنے جارہے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے کی خبریں آئے روز آپ کو سننے کو ملتی ہی رہتی ہیں مگر ایک روز قبل لاہور میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ایک شوٹر کی خبر جو سامنے آئی ہے کہ 25 لاکھ مانگنے والا ڈاکو ساتھیوں کی فائرنگ میں مارا گیا،یہ شوٹر 6 شہریوں کے قتل میں ملوث تھا۔آرگنائزڈ کرائم پولیس کے مطابق ڈاکو رفیق زیر حراست تھا، جسے برآمدگی کیلئے لے جایا جارہا تھا کہ نشتر کالونی کے علاقے میں ملزم کے ساتھیوں نے پولیس پر فائرنگ کردی۔ترجمان لاہور پولیس کے مطابق ملزم رفیق فائرنگ کے تبادلے میں اپنے ہی ساتھیوں کی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ ملزم لاہور، شیخوپورہ اور قصور پولیس کو سنگین جرائم کی وارداتوں میں مطلوب تھا۔پولیس کے مطابق ملزم نے شہری کو قتل کرنے کے بعد لاش کے بدلے ورثاء سے 25 لاکھ روپے کا مطالبہ کیاتھا اور رقم کی عدم ادائیگی پر مقتول کی لاش نہر میں پھینک دی تھی۔ایسے خطر ناک ملزمان کو کسی بھی صورت معاشرے میں جینے کا حق نہیں ملنا چاہیے جو اونے پونے پیسوں کی خاطر بے گناہ لوگوں کو قتل کردیتے ہیں۔اس شوٹر کے واصل جہنم ہونے کی خبر جب ان گھرانوں کو ملی ہوگی جن ہنستے بستے گھروں کو اس نے اجاڑا ہو گا یقیناانہوں نے سکھ کا سانس لیا ہو گا اوروہ پولیس کے لیے دعا گو بھی ہونگے۔آرگنائزڈ کرائم پولیس کا یہ پہلا مقابلہ نہیں ہے اس طرح کے درجنوں شوٹر ان کے ساتھ مقابلوں میں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اب ہم ایک اور مقابلے کی بات کریں گے جو کہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یارخان میں بیان کیا گیا ہے۔خبر اس طرح سے ہے کہ کچہ کے انڈھر گینگ کے ڈاکوؤں نے حملہ کرکے پولیس کے 4سہولت کار قتل کر دئیے کچھ عرصہ قبل بستی لاشاری خان پور کے رہائشی عثمان چانڈیہ نے پولیس کے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے انڈھر گینگ کے سربراہ جانو انڈھر اور اس کے چار ساتھیوں کو قتل کر دیا تھا اور عثمان بھی مارا گیا۔ خاندان سے بدلہ لینے کیلئے انڈھر گینگ کے ڈاکوؤں نے عثمان چانڈیہ کے گھر پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس سے زمان،سجن، مدنی اورگڈو مارے گئے۔ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے نوٹس لیتے ہوئے آر پی او سے رپورٹ طلب کرلی اور ڈی پی او رحیم یار خان کو قتل میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔ اطلاع پرپولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی، اورحملہ آورڈاکوؤں کا گھیراؤ کرلیا،ڈی پی اوکی طرف سے جاری بیان کے مطابق پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں 2 ڈاکو بھی مارے گئے۔ میڈیا کو رپورٹ کرنے والے وہاں کے ایک مقامی اخبار نویس نے اس واقعہ کا پس منظر کچھ یوں بتایا ہے کہ جولائی 2023 میں ججہ عباسیاں میں مقیم چانڈیہ برادری کے ایک نوجوان عثمان چانڈیہ کو رحیم یار خاں پولیس نے باقاعدہ ٹریننگ دیکر کچہ رونتی میں بھیجا کہ وہ وہاں جاکر پولیس کے لئے ایک طویل عرصے سے درد سر بنے رہنے والے کچہ میں مقیم اندھڑ اور شر گینگ کے سرکردہ لوگوں کو ہلاک کر کے آئے، عثمان ایک نہایت جی دار اور دلیر لڑکا تھا اس نے اس مشن پر جانے سے پہلے پولیس کے سب سے بڑے افسر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو ٹرینر صاحبان نے اسے ان سے ملوایا جہاں بہت سارے وعدے، عہد و پیمان بھی کئے گئے کہ اگر تم یہ کارنامہ سرانجام دو گے تو ہم تمہارے خاندان کو تحفظ بھی دیں گے اور انعام و اکرام سے بھی لاد دیں گے، تمہارے بھائی جو جیل میں ہیں انہیں بھی چھڑوا دیں گے وغیرہ وغیرہ، الغرض عثمان اپنے مشن پر روانہ ہوا جہاں اس نے اپنے آپ کو ایک کریمنل اور ڈکیت ظاہر کیا جانو کے چھوٹے بھائی کو اس نے رام کیا ہوا تھا، وہ اسے مختلف اوقات میں وارداتیں کر کے رقم بھی پیش کرتا کہ یہ لو کیا یاد کرو گے، یوں اس نے وہاں اعتماد حاصل کیا اور پھر آخر کار جولائی 2023 میں اس نے اندھڑ اور شر گینگ کے شیروں کو مار ڈالا، جانو اندھڑ، سومر شر، مشیر اندھڑ،شہزادہ دشتی اور نظر علی شر کو اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا جب وہ کھا پی کے سوئے ہوئے تھے۔ اور پھر عثمان بھی ان کے قبیلہ کے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا اور شر قبیلے کے لوگوں نے اسے گولیوں سے بھون ڈالا، ابتدا ء میں پولیس نے اس کے والدین اور بھائی نوید چانڈیہ کو گھر سے لے جاکر پولیس لائن میں ایک کمرہ دیدیا، نوید چانڈیہ کے مطابق ابتدا ء میں پولیس نے ہماری خوب خاطر تواضع کی اور ہمیں وہ کروڑوں روپے دلوانے کا جھانسہ بھی دیا جو اندھڑ اور شر گینگ کے سرکردہ لوگوں کے سر کی قیمت کے طور پر مقرر تھا، عثمان چانڈیہ کی والدہ کے مطابق کہ ایک ڈیڑھ ماہ ہمیں وہاں رکھنے کے بعد آہستہ آہستہ بے غوری کی جانے لگی اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ جیسے ہم قید ہیں ایک دن اے ایس پی صدر خاتون دانیہ رانا نے ہمیں دس لاکھ روپے لاکر دیئے اور باقی کے کروڑوں روپے کا ایک بار پھر وعدہ کیا گیا، عثمان چانڈیہ نے وہ کام کیا جو طویل عرصے سے پولیس کی فوج ظفر موج بھی نہ کر سکی اربوں روپے کا فنڈز خرچ ہونے یا نہ ہونے سے بھی ان ڈاکوؤں کا کچھ نہیں بگڑ سکا جو نقصان عثمان چانڈیہ نے انہیں پہنچایا تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس اپنے وعدے ایفا کرتی کچھ عرصہ پہلے عثمان چانڈیہ کے بھائی نوید چانڈیہ کو شبہ ہوا کہ کچھ لوگ آئے تھے جو ہمارے گھر کی ریکی کر گئے تاکہ کب اور کس وقت حملہ کیا جائے، پولیس نے ان دنوں وہاں پولیس کی گارد متعین کر دی مگر کچھ ہی عرصہ بعد پولیس گارد کسی آفیسر کے حکم پر ہٹا دی گئی۔اور پھر اتوار کی رات 8 بج کر 40 منٹ پر اچانک ججہ عباسیاں کی پر امن فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی، یہ فائرنگ تقریباً 9 بج کر دس بارہ منٹ پر تھم گئی، اس بستی کے سب مکین اپنے اپنے گھروں میں دبکے رہے البتہ نوید چانڈیہ کے عزیز عباس چانڈیہ، گلاب چانڈیہ اور ندیم چانڈیہ بار بار 15 پر کال کر کے اپنے اوپر ڈھائے جانے والی قیامت بارے بتاتے رہے، پولیس نے آگے جو رسپانس دیا وہ میں نہیں بتاتا البتہ آپ ان کے ورثاء کی زبانی سن لیں۔(جاری ہے)