دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر53
میں سائرہ بانو میں بڑی تبدیلی دیکھ رہا تھا ۔اگرچہ اس نے میری بہنوں کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے میں بڑی خندہ پیشانی ا ور کھلے دل کا ثبوت دیا تھا لیکن وہ اندر سے ٹوٹ رہی تھی ۔وہ شرمیلی اور بزدل لڑکی تھی ۔وہ اپنے اندر کے جذبات کو ماتھے اور زبان پر نہیں لارہی تھی ۔ نازونعم میں پلی بڑھی سائرہ کو اب ایک بڑے اور مشترکہ خاندانی نظام میں روک ٹوک کا سامنا تھا مگر زیادہ بھی نہیں لیکن اس کا اثر اس پر ظاہر ہورہا تھا ۔اسکے ذہن پر دباوآرہا تھا ۔
میں اپنی بہنوں کا بڑا احترام کرتا تھا ۔شروع سے ان کا بڑا معاون تھا ۔ان سے محبت کرتا تھا اور انہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ سوچیں بھائی بڑا آدمی بن گیا ہے اس لئے اپنی بیوی کی وجہ سے اسکونظر انداز کررہا ہے ۔میں اس احساس کی محرومی کا درد جانتا تھا ۔
سائرہ بانو کی صحت یکایک گرنے لگی ۔پہلے تو آپا یعنی سائرہ کی اماں اور بھائی سلطان نے اسکو سنبھالنے کی کوشش کی اور مجھ سے چھپائے رکھا ،پھر مجھے جب بتایا تو یہ کہ یہ عام سا مسئلہ ہے یہ جلد ٹھیک ہوجائے گی۔سائرہ بانو کے پیٹ اور سینے میں درد اور آنتوں میں سوزش ہوگئی تھی۔میں فکر مند ہوگیا ۔اسکی فلمیں بھی جاری تھیں ،میں بھی مصروف تھا،ذہنی دباوسے اسکا معدہ انتہائی ڈسٹرب ہوگیا تھا۔ڈاکٹروں کو فوری دکھلایا لیکن کوئی دوا اسکو موافق نہیں آرہی تھی۔اسکی تکلیف میرے دل سے ہوتی ہوئی آنکھوں سے چھلکنے لگی تھی۔مگر وہ باہمت تھی اور اپنی تکلیف مجھ سے یوں چھپا رہی تھی جیسے مشرقی ایثار پیشہ بیویاں ....
گزشتہ قسط۔دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر52
ڈاکٹروں نے سائرہ بانو کے کھانے پینے پر پابندی لگا دی تھی،کیا کھانا ہے کب کھانا ہے ۔اسکا دھیان تو نسیم آپا ہی رکھ سکتی تھیں پس انہوں نے پرہیزی کھانا اپنے گھر سے بنا کر بھیجنا شروع کردیا۔ا سکا میری بہنوں کو قلق ہوا لیکن بوجوہ کوئی نہیں بول پایا ۔اسکی انتڑیاں کافی کمزور ہوگئی تھیں۔ہم نے سینٹ ایلزبتھ نرسنگ ہوم سے اسکا علاج کرایا ۔یہ اچھا اقدام تھا کہ فوری ایسے معیاری ہسپتال سے رابطہ کرلیا تھا ۔لیکن وہاں
سینئر ڈاکٹر نے تجویز دی کہ زیادہ بہتر ہوگا سائرہ کولند ن لے جایا جائے۔ وہاں لندن کلینک میں دنیا کے معروف ڈاکٹر سر فرانسس اویری جونز سے اسکا علاج کرایا جاسکتا ہے۔وہ ملکہ ایلزبتھ کا بھی ڈاکٹر تھا اور اسکی ساکھ کا سکہ ہر طرف بیٹھا تھا ۔پس میں نے ٹھان لی اور دوستوں کی بھرپور مدد کے ساتھ ہم نے فوری لندن جانے کی ٹھان لی ۔
لندن کلینک میں سائرہ بانو کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ۔میں پریشان ہوا کہ یہاں مریض کے ساتھ کوئی دوسرا تیماردار نہیں رک سکتا تھا ۔میں سائرہ کے پاس دن بھر رہتا اور وہ مسکراتی ہوئی مجھے باور کراتی رہتی کہ وہ ٹھیک ہوجائے گی۔وہ اپنے انداز سے مجھے اپنی وفا کا یقین دلاتی تھی۔میری پریشانی اس سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ہسپتال میں سخت قوانین تھے لیکن ڈاکٹر فرانسس اویری جونز نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور نسیم آپا کو رات کو ٹھہرنے کی اجازت دی دے گئی ۔لیکن اس کے لئے انہیں صرف ایک ایک چھوٹا ساسٹول دیا گیا تھا ۔وہ خود کمر کی تکلیف میں مبتلا تھیں ،رات بھر بیٹی کے لئے وہ اسٹول پر بیٹھی رہتیں ۔ڈاکٹر فرانسس نے ان کا یہ جذبہ دیکھا تو بڑا متاثر ہوا۔کہنے لگا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار کسی ماں یا شوہر کو مریضہ کے لئے اتنا پریشان اور مخلص دیکھا ہے اور یہ اعزاز صرف اہل مشرق کو حاصل ہے جو اپنوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے۔
سائرہ بانو ایک ماہ تک مسلسل لندن کلینک میں زیر علاج رہی ۔اس وقت منوج کمار نے لندن میں اپنی فلم ”پورب پنچھم “ کی شوٹنگ شروع کردی۔ یہ فلم 1970 میں ریلیز ہوئی تھی ،اس پر میں نے پریشانی کا اظہار کیا تو منوج کمار نے مجھے مکمل تسلی کرائی کہ وہ سائرہ بانو کی صحت کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔اس نے سائرہ بانو کی بیماری کو دیکھتے ہوئے اسکا سکرپٹ تیار کرایا تھا ۔وہ اس فلم کا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی
تھا اور ہیرو بھی۔اس نے کہا کہ وہ سائرہ بانو کے بغیر فلم نہیں بنائے گا۔اسکی صحت کی بحالی کا انتظار کرے گا،اگر سائرہ نے انکار کردیا تو وہ فلم بنانے سے دستبردار ہوجائے گا۔منوج کمار کی اس بات نے مجھے گھائل کردیا ۔میں نے اسکا یہ قرض اسکی فلم کرانتی جو کہ 1981میں ریلیز ہوئی تھی ،اس میں کام کی حامی بھر کر ادا کیا اور کرانتی کا سکرپٹ پڑھے بغیر اوکے کردیا تھا ،مجھے منوج کمار پر پورا یقین تھا کہ وہ کبھی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اسکی اپنی آن پر آنچ آئے گی۔
سائرہ نے اس دوران کئی فلموں میں مزید کام سے انکار کردیا تھا ۔ہم ان دنوں لندن میں ہی رک گئے تھے ۔دونوں دنیا کے اس فیشن ایبل شہر مین اکٹھے وقت گزارتے رہے،لانگ ڈرائیونگ پر نکل جاتے ۔سائرہ کی لندن سے حسین یادیں جڑی تھیں،اسکا بچپن اور لڑکپن ادھر ہی گزرا تھا ۔لند ن کی فضا نے اس پر مثبت اثر کیا ۔
سائرہ بانو شہر کا جو کونا دیکھتی اس سے وابستہ یادیں تازہ کرتی۔ایک دن اس نے بتایا کہ اسے بکنگھم پیلس دیکھنے کا بڑا شوق تھا ۔اتفاق سے مجھے انہیں دنوں ملکی ایلزبتھ کی جانب سے محل میں چائے کی دعوت ملی ۔میں بڑے اہتمام سے تیار ہوا ور سائرہ بانو کو سرپرائز دینے کے لئے اسکو پتہ نہیں لگنے دیا کہ میں اسکو کہاں لئے جارہا ہوں ۔اس وقت تک اسکے چہرے کی تازگی واپس آچکی تھی۔ رولز رائس پرجب ہم بکنگھم پیلس کے پاس پہنچے تو سائرہ حیرت و مسرت سے پوچھنے لگی کہ اسے کہاں لے جایا جارہا ہے ،جب گاڑی محل میں داخل ہوگئی تو میں نے اسے بتایا کہ ملکہ کی جانب سے دعوت ملی ہے اس لئے ہم آج محل کے مہمان ہیں۔سائرہ بانو کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔
ہم محل کی راہ داریوں میںدم سادھے چلتے رہے اور جب سامنے باغ میں پہنچے تو دیکھا ملکہ اپنے مہمانوں کا استقبال کررہی ہیں۔ا ن کے ساتھ،مادر ملکہ شہزادہ فلپ،شہزادہ چارلس اور شہزادی اینی مارگریٹ بھی تھی۔ملکہ نے بڑے تپاک سے میرا استقبال کیا۔مجھے دیکھ کر بہت سے لوگ آٹو گراف لینے آگئے ۔ملکہ نے دیکھا تو کہا” تم بہت مشہور اور مقبول شخص ہو،تم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی“ شاہی خاندان کے دیگر لوگوں سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔سائرہ پر اس مالقات کا بڑا اچھا اثر پڑا۔ (جاری ہے )
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں