شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 56
خدمت خلق
حضرت سیّد چراغ محمد شاہؒ علم طب میں بھی بڑی دسترس رکھتے تھے۔ اگرچہ آپ نے اس فن کو اپنا پیشہ نہ بنایا اور نہ ہی کوئی دواخانہ کھولا۔روزانہ بیسیوں بیمار آپ کی خدمت میں آتے تھے۔ آپ ان کا علاج مفت کرتے تھے۔ دور دراز کے بیماروں کا معائنہ کرنے کی کوئی فیس نہ لیتے تھے آپ کا طریقہ علاج یونانی تھا۔کشتہ جات میں سے آپ ہڑتال ورقی، ابرک سفید، شنگرف اور فولاد کا کشتہ استعمال کرتے تھے۔
آپ ہمیشہ کم قیمت اور سہل الحصول نسخہ تجویز فرماتے تھے۔ بلامبالغہ ہزاروں لوگ آپ کے علاج سے صحت یاب ہوئے۔
علاج مارگزیدہ
علاج مارگزیدہ میں دور دور تک آپ کا شہرہ تھا۔ آپ مارگزیدہ کا علاج صرف دعا سے کرتے تھے اور کوئی دوا وغیرہ استعمال نہ کرتے تھے۔ تادم تحریر سینکڑوں آدمی موجود ہیں جو آپ کی دعا سے صحت یاب ہوئے۔
شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 55 پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں
تحصیل کوٹلی اور میرپور کے مضافات میں جب کسی جگہ کوئی ایسا حادثہ ہوتا تو لوگ آپ کی خدمت میں دعا کیلئے ملتجی ہوتے اور آپ کے دم اقدس کی برکت سے زہریلے سے زہریلے سانپ کا زہر منٹوں میں کافور ہو جاتا اور مریض فوراً صحت یاب ہو جاتا۔ تمام عمر میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مارگزیدہ کی اطلاع آپ کو پہنچ گئی ہو اور وہ جاں بر نہ ہوا ہو۔
اخلاقِ کریمہ
حضرت سیّد چراغ محمد شاہؒ کی ذات گرامی اخلاقِ حمیدہ کا مجموعہ تھی اور آپ کی ذات والا صفات علم، صبر، حیا، عفو، عصمت، تحمل، وفا، شجاعت اور دیانت میں اسوہ حسنہ کا نمونہ تھی۔
آپ ہر آدمی کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اگر کسی شخص سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو آپ بکمال مہربانی اسے معاف فرما دیتے تھے۔
مریضوں کی تیمارداری اور اہل دیہہ کی غمی خوشی میں شریک ہونا آپ کا معمول تھا۔ اگرچہ امراء کے ساتھ آپ کا دائرہ تعلقات وسیع نہ تھا تاہم ان کو بھی اپنی دستگیری اور اعانت سے محروم نہ رکھتے تھے۔
ذریعہ معاش
سیّد چراغ محمد شاہؒ قدس سرہ نے تمام عمر پیری مریدی کو ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ آپ کاشتکاری کر کے گزارا کرتے تھے ۔
جاہ طلبی اور شہرت سے نفرت
آپ کو، انکساری اور سادگی حد درجہ مرغوب تھی۔ جاہ طلبی اور شہرت سے آپ کو دلی نفرت تھی۔
صدقات اور خیرات میں اس قدر اخفا کرتے تھے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی تھی۔ ایک روز راولپنڈی کا ایک آدمی چکسواری شریف میں آیا ۔حضور اس دن آستانہ عالیہ میں موجود نہ تھے۔ راقم کے استفسار پر اس نے بتایا کہ تین روز متواتر مجھے ایک بزرگ رات کو بیداری میں ملتے رہے اور ہر روز وہ یہی ارشاد فرماتے رہے کہ تم فوراً میرے پاس آؤ ۔تیسرے روز میں نے التماس کی کہ حضور مجھے اپنا پتہ بتائیں تو آپ اپنا نام اور پتہ بتا کر غائب ہو گئے چنانچہ میں اسی پتہ یہاں پہنچا ہوں۔
جب حضور قبلہ عالم گھر میں تشریف لائے تو موصوف نے آپ کو دور سے پہچان لیا اور کہا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جو مجھے ملتے رہے ہیں۔
جب وہ بیعت سے مشرف ہو کر چلا گیا تو آپ نے مجھے ہدایت کی کہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔آپ کی عادت کریمہ تھی کہ جب کسی شخص کو آپ کی کرامت اور خوارق کا مشاہدہ ہوتا تو آپ اس کے اخفا کی تاکید فرما دیتے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے صرف چند افراد کو حلقہ بیعت میں داخل کیا اور پیری مریدی کو فروغ نہ دیا۔ آپ کا دستور تھا کہ جو شخص بیعت کی درخواست کرتا آپ اسے نماز، روزہ اور دوسرے فرائض پیر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے اور کچھ مسنون اوراد دیتے لیکن بیعت نہ فرماتے۔
عشقِ قرآن
حضرت سیّد چراغ محمد قدس سرہ نے تمام عمر تلاوتِ قرآن مجید میں ناغہ نہیں کیا۔ شروع میں تو روزانہ بیس پارے پڑھنا آپ کا معمول تھا لیکن آخری عمر میں تیسرے روز قرآن مجید ختم کرتے تھے۔
درسِ قرآن
حضرت قطب الاقطاب قدس سرہ ہمیشہ بعد از نماز فجر وظائف سے فارغ ہو کر درس قرآن مجید دیتے تھے۔ موضع چکسواری اور گردونواح کے دیہات کے اکثر لوگوں نے آپ ہی سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔
معاصرین بزرگان دین
ابدالِ زماں حضرت میاں محمد بخشؒ مصنف سیف الملوک، میاں محمد یوسف اور سائیں کالا مجذوب جو آپ کے معاصرین میں بڑے نامور بزرگ تھے۔ آپ کا انتہائی احترام کرتے تھے اور آپ کے بلند مراتب کے معترف تھے۔ حضرت علامہ مولوی محمد عبد اللہ مرحوم جو ظاہری علوم میں یکتائے روزگار ہونے کے علاوہ صاحب باطن بھی تھے۔ حضرت سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ کا انتہائی ادب کرتے تھے اور آپ کو صاحب ولایت اور علوم باطنی کا سرچشمہ سمجھتے ۔ حضرت مفتی غلام حسین مرحوم اور مولوی الہیٰ ؒ جن کا شمار سرزمین میرپور کے اکابر علماء میں تھا۔ آپ کو عظیم الشان بزرگ اور بلند پایہ عارف تسلیم کرتے تھے۔(جاری ہے)