جنات کا غلام۔۔۔ اکتیسویں قسط

جنات کا غلام۔۔۔ اکتیسویں قسط
جنات کا غلام۔۔۔ اکتیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘

تیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

میرے دماغ میں کھدبد سی ہونے لگی کہ یہ آواز تو میں نے کئی بار سنی ہے لیکن یہ شکل و صورت پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نیاز لے کر کونے میں بیٹھ گیا۔ بابا تیلے شاہ تو مزار کے اندر چلے گئے تھے لیکن بھوک کی وجہ سے میں چاول کھانے لگ گیا۔ اصولی طور پر تو یہ بداخلاقی تھی لیکن بھوک کی ننگی تلوار میرے سر پر ضربیں لگا رہی تھی اس لئے میں ”شوہدا اور ندیدا“ بن کر نیاز کے چاول کھاتا رہا۔ میری نظریں ابھی تک سفید باریش بزرگ پر تھیں۔ ان کا ہاتھ دیگ کے اندر جاتا تھا اور بھری پلیٹ باہر آ جاتی تھی مگر دیگ تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں اس عجیب اسرار پر حیران تھا اور شاید میری حیرانی کبھی ختم نہ ہوتی کہ ایک مجہول سا نوجوان لڑھکتا ہوا میرے پاس آ بیٹھا۔ اس کی ناک بہہ رہی تھی۔ بال گندے تھے۔ تن پر صرف ایک چیتھڑا تھا اس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ مجھے ناگوار تو لگا لیکن کراہت کے باوجود میں کچھ نہ کہہ سکا۔ مزار کی روشنیاں جل اٹھیں۔ وہ لڑکا میری جھولی میں ہاتھ ڈال کر چاول کھانے لگا۔ میرے اندر ناگواری کی لہر اٹھی لیکن میں نے ضبط کیا اور سارے چاول اس کے سامنے کر دئیے۔ لڑکا بھوکوں کی طرح چاولوں پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے چاول کا ایک دانا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ جب کھا چکا تو میری طرف دیکھ کر ہنس دیا۔ میرے چہرے پر اندر کی ناگواری رینگ کر باہر نکلتی نظر آ رہی تھی۔ وہ بولا
”بھیا .... سواد آیا ہے“
اس کی بات سنتے ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔
”غازی تم“
”ہاں میں .... اور وہ .... بابا جی سرکار“ اس نے دیگ والے باریش بزرگ کی طرف اشارہ کیا تو اس لمحہ انہوں نے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ میں اس عجیب اتفاق پر ابھی حیران ہو ہی رہا تھا کہ بابا جی سرکار نے مجہول لڑکے کے روپ میں غازی کو آواز دی تو وہ پھدکتا ہوا ان کی طرف بڑھ گیا اور ان کے اشارے پر دیگ کو یوں اٹھا کر ایک طرف کو چل دیا جیسے وہ دیگ نہ ہو پیالی ہو۔ میں جھولی جھاڑتا ہوا بابا جی کی طرف بڑھا تو انہوں نے ہاتھ سے ادھر ہی مجھے رک جانے کا اشارہ کیا۔
بابا جی کا یہ روپ مجھے اچھا لگا تھا۔ لیکن میں حیران تھا کہ انہوں نے مجھے قریب آنے سے کیوں روکا ہے۔ میں گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا کہ کیا کروں۔ بابا جی کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ اس اثنا میں غازی دیگ رکھ کر آ گیا۔
”بابا جی نے مجھے پاس آنے سے منع کر دیا ہے“ میں نے شکوہ کے انداز میں غازی سے کہا۔
”اس کی وجہ ہے“ غازی نے کہا
”کیا وجہ ہو سکتی ہے“ میں نے دریافت کیا۔
”آج سرکار کے ساتھ ایک اور مہمان ہستی آئی ہے۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ تم ان کے قریب جاﺅ اور کوئی بات کرو“
”کون سی ہستی ان کے ساتھ آئی ہے“ میں نے پراشتیاق لہجے میں پوچھا۔
”بتا دوں گا .... لیکن پہلے ایک وعدہ کرو“
”وعدہ“ میں نے سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا۔
”ادھر تمہارے شہر میں قلفیوں کی ایک بڑی مشہور دکان ہے۔ مجھے قلفیاں لا دو پھر تمہیں بتاﺅں گا“
غازی کی فرمائش سن کر میں نے بے اختیار قہقہہ لگایا
”بس .... اتنی سی بات تھی“ یہ کہہ کر میں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے تھما دئیے۔ ”یہ لو اور موج اڑاﺅ“
”بھیا میں فقیر تو نہیں ہوں خود لا کر دو ناں“
”چھوڑ یار .... شکل سے تو آج فقیر ہی لگ رہا ہے“ میں نے اسے چھیڑا اور کہا ”ویسے غازی تمہیں یہ عجیب و غریب روپ بھرنے کا خیال کیسے آتا ہے“
”مجھے مزہ آتا ہے ایسے سوانگ بھرنے سے۔ لوگ مجھے پاگل مجہول سمجھ کر مجھ سے بھاگتے ہیں اور میں اندر ہی اندر انجوائے کرتا ہوں“
”غازی تمہیں معلوم ہے ہمارے ہاں بہت سے ایسے مجہول ملنگ ٹائپ بچے جوان اور بوڑھے لوگ موجود ہیں جنہیں لوگ بزرگ ہستی مان کر ان سے دعائیں کراتے ہیں“
”جانتا ہوں میں .... میں خود بھی یہ کام کرتا ہوں۔ کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ مل کر کسی علاقے میں چلا جاتا ہوں کسی کو گالی دیتا ہوں‘ کسی کو جوتے مارتا ہوں۔ کسی پر پتھر اٹھا مارتا ہوں مجذوب بن کر۔ اپنے پاگل پن سے لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ پھر ایسے شعبدے بھی دکھاتا ہوں جنہیں لوگ ایک مجنوں کی کرامت سمجھ کر اس کا احترام کرنے لگ جاتے ہیں۔ مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ تمہیں ایک بات بتاﺅں“
”ہوں۔۔ کہو“ میں نے کہا
”ہو سکتا ہے تم غصہ کرو۔ لیکن ایک بات ہے ہمارے جد امجد ابلیس نے اپنے چیلے چانٹوں کو یہ سبق پڑھایا ہے کہ لوگوں کا اعتقاد کمزور کرنے کے لئے انہیں ایسے شعبدے دکھایا کرو جنہیں دیکھ کر لوگ کرامت سمجھنے لگ جائیں اور لوگ ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے مسلمان ، ایسے لوگوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اللہ کی حقیقی عبادت سے دور ہو جاتے ہیں۔ شریعت کے احکامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بھیا .... میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے ہر مسلمان کو اس کے کردار اور اس کی عبادات کی وجہ سے معاف کرنا ہے لیکن ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہماری نجات کا باعث ہوں گے۔اگرچہ اخلاقیات اور حقوق کے حوالے سے ہمارے اعمال دوسروں سے منسلک ہوتے ہیں مگر یہ اعمال نیکی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان نیکی کے اسباب اور طریقہ کار کو بھول جاتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے بھیا کہ مسلمان اب شیطان سے بھی نیکی کرنے لگے ہیں۔ اس پر بھی رحم کھاتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ نیکی کے لباس میں چھپا ہوا شیطان ہماری ہمدردی کا مستحق نہیں ہے جیسا کہ میں اعتراف کر رہا ہوں کہ مجھ جیسے شرارتی جنات اور شیاطین بھی ایسے کراماتی روپ دھار کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھیں کہ جس شخص کی کرامات سے وہ متاثر ہو رہے ہیں کیا وہ شریعت کا پابند ہے۔ شریعت کے دائرہ عمل سے باہر نکل جانے والا کبھی بھی اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ مجذوب قسم کے لوگ جو ہوش و حواس سے بیگانہ ہوں ان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔“
”غازی .... تم نے بڑے کام کی بات بتائی ہے لیکن کیا تم مجھے کوئی ایسا نکتہ بتا سکتے ہو جس سے جنات یا شیاطین کی پہچان ہو جائے“
”یہ بڑا مشکل کا م ہے۔ انہیں پہچاننے کا ایک طریقہ تو شریعت کا آئینہ ہے جس میں ہر کسی کے ا صلی چہرے کو پہچانا جا سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ وظائف کا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا وظیفہ ہے جسے آپ پڑھ کر اس شخص کی طرف پھونک ماریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ شخص خاکی ہے یا آتشی۔ ہم جنات اور شیاطین آتشی مخلوق ہیں۔ یہ نورانی آیات ان کے بدن کی کھال ادھیڑ دیتی ہیں“
غازی کی بات سن کر میرے ذہن میں بہت سے سوالات سر ابھارنے لگے۔ میں نے غازی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور ہم دونوں مزار سے چند قدم دور پتھروں سے بنی قبور کے پاس جا بیٹھے۔ میں نے اس سے پوچھا ”غازی .... تم مجھے بہت کارآمد باتیں بتا رہے ہو لیکن ایک سوال مجھے تنگ کر رہا ہے“
”وہ کیا“ اس نے پوچھا
”سچی بات تو یہ ہے میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے بہت سے وظائف یاد ہیں لیکن میں نے جب بھی یہ وظائف پڑھے ہیں میں اپنے سامنے حاضر ہونے والے جنات کی پہچان نہیں کر پایا“
”میں تمہاری بات نہیں سمجھا“ غازی نے الجھے لہجے میں سوال کیا۔
”مثلاً یہ کہ .... جب بابا جی اور آپ لوگوں کی حاضری ہوا کرتی تھی تو میں اس شک میں مبتلا رہتا تھا کہ آپ لوگ شیطان ہیں۔ حقیقی جنات نہیں ہو سکتے۔ میں دل ہی دل میں بہت کچھ پڑھتا تھا مگر آپ لوگ پھر بھی میرے سامنے سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ اب تم کہہ رہے ہو کہ وظائف کی نورانی طاقت سے جنات و شیاطین کا اصلی چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور وہ غائب ہو جاتے ہیں“
میری بات سن کر غازی نے قہقہہ لگایا اور پھر دیر تک ہنستا رہا۔
”ہنس کیوں رہے ہو“
”بابا .... وہ میں .... تمہاری سادگی پر ہنس رہا ہوں“
غازی ہنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ اس اثنا میں ایک شخص ہمارے پاس سے گزرنے لگا تو غازی اسی طرح قہقہے لگاتا اس سے لپٹ گیا۔ وہ شخص پریشان ہو گیا۔ غازی نے ہنستے ہوئے ایسا پنیترا بدلا کہ میں حیران ہو کر رہ گیا۔ وہ اس کے گلے میں بازو ڈال کر جھولا جھولنے کے انداز میں لٹک گیا اور منمناتے ہوئے گنگنانے لگا۔
ترے من کی مراد
بابا شاہ کرے پوری
رکھ لاج فقیر کی
بابا شاہ کرے پوری
وہ شخص خاصی عمر کا تھا۔ اس کے چہرے پر حزن و ملال ڈیرے ڈالے نظر آ رہا تھا۔ اس نے جب ایک مجہول لڑکے کو یوں اپنے ساتھ لپٹے دیکھا اور پھر اس کے نعرہ مستانہ کو سنا تو وہ اس سے گھبرانے کی بجائے خود اس سے لپٹ گیا۔
”میں مر جاﺅں گا سرکار .... میرے لئے کچھ کریں“ وہ شخص بلک بلک کر رونے لگ گیا۔ میں حیرت میں گم سم غازی کی اس حرکت کو دیکھ رہا تھا اس نے اپنی بات کو سچ ثابت کر دکھایا تھا۔
غازی نے کن اکھیوں سے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ مجھے ایسے لگا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا بھیا میں نے اس کو پھانس لیا ہے۔
غازی اب اس کو دلاسہ دینے کے انداز میں زور زور سے پیٹھ پر تھپکیاں دینے لگا۔
”بابا شاہ تری مراد پوری کرے گا“ غازی مجہول سے لہجے میں اسے کہنے لگا یہ بات کرتے ہوئے اس کا ڈھیر سارا لعاب دہن اس شخص کے چہرے پر گرا۔ میں نے اس وقت کراہت سے آنکھیں میچ لیں۔ اس شخص نے بڑی عقیدت سے سارا لعاب دہن دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے پر یوں مل لیا جیسے لوشن لگا رہا ہو۔ مجھے ابکائی آتے آتے رہ گئی۔
”شاہ بابا .... شاہ بابا ۔۔دھم دھما دھم.... شاہ بابا .... دھم دھما دھم.... شاہ بابا“ غازی اب لہک لہک کر دھمال کے انداز میں نام لیتا جا رہا تھا۔ وہ شخص بھی دیوانہ وار اس کا ساتھ دینے لگا۔ اس لمحہ ایک ڈھولچی کہیں سے ادھر آ نکلا۔ اس نے ڈھول کو ایسی تھاپ دی کہ کچھ ہی دیر بعد ایک پرکیف‘ وجدانی اور سرفروشانہ ماحول پروان چڑھ گیا۔ مزار کی نکڑوں سے‘ قبروں کے آس پاس لیٹے بھنگ کے نشہ میں غرق ملنگ اور عقیدت مند ادھر آ نکلے اور ایسے سرمست ہو کر دھمال ڈالنے لگے کہ میرا انگ انگ بھی ڈھول کی تھاپ پر مچلنے لگا۔پہلے ایک ڈھولچی‘ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا میدان میں اتر آیا۔ ایک طرف دھمال ڈالنے والے اور دوسری طرف ڈھول کو تھاپ کے نئے نئے آہنگ دینے والے۔ میرے لئے اب بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا مجھے لگا جیسے یہ تھاپ مجھے مدہوش کئے جا رہی ہے۔ ایک سرور ہے جو میرے ذہن پر تسلط جما رہا ہے۔ میرے پیر مچلنے لگے،،، پورا بدن پھڑکنے لگا اور پھر میں ڈھول کی تھاپ کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ میں دیوانہ وار دھمال ڈالنے لگا۔ مجھے نہیں معلوم کب تک میں دھمال ڈالتا رہا تھا اور پھر میں تھک کر جیسے گر گیا۔ شاید بے ہوش ہو گیا تھا۔ میری آنکھ کھلی تو میرے گرد بہت سارے لوگ اکٹھے تھے۔ میرا سر غازی کی گود میں تھا ۔ قریب ہی وہ شخص بھی بیٹھا میرے چہرے پر پانی چھڑک رہا تھا
”غغ .... غاز“ میں غازی کو پکارنے ہی لگا تھا کہ اس نے میرے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا ”شاہ بابا .... شاہ بابا شاہ بابا“ مجھے ہوش میں آتے دیکھتے ہی اس نے خفیف انداز میں مجھے اپنا اصلی نام لینے سے روک دیا تھا۔ لیکن اس کی حرکت سے اس کا ڈھیروں تھوک میرے چہرے پر گر گیا اور میں یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اپنی قمیض کے پلو سے فوراً چہرہ صاف کیا اور غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگا لیکن غازی سرمست ہو کر شاہ بابا ، شاہ بابا کی گردان کئے جا رہا تھا۔ مگر وہ شخص میرے پاس آ گیا اور بولا ”بیٹے غصہ نہ کرو یہ سائیں بچہ ہے۔ میں نے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ ایسے بچے کی بددعائیں نہیں لینی چاہئے یہ کسی پر تھوک دیں تو اس کے غم دھل جاتے ہیں ، تم غصہ نہ کرنا مجھے تو لگتا ہے اس سائیں کو تم سے کوئی خاص نسبت ہے“
”مم .... میری کوئی نسبت نہیں ہے اس سے“ میں ناراض ہو کر اپنے گرد کھڑے لوگوں کو دیکھنے لگا تو اس شخص نے ملنگوں اور عقیدت مندوں کو وہاں سے جانے کے لئے درخواست کی۔ لوگ تتر بتر ہو گئے۔ اب صرف وہ شخص اور غازی ہی میرے پاس تھے۔
”اگر تمہاری نسبت نہیں ہے تو دھمال کے بعد جب تم نیچے گرنے لگے تھے تو اس نے تمہیں نیچے کیوں نہیں گرنے دیا۔ اس نے تمہیں یوں اٹھا لیا تھا جیسے نومولود بچے کو اس کی ماں سینے سے لگا کر چارپائی پر لٹاتی ہے۔ میں ہی نہیں ان سب لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا۔ اس نے بڑی چاہت سے تمہیں اٹھایا تھا۔ خود سوچو یہ اللہ والا ہے۔ کیا تمہارا وزن اس سے زیادہ ہے۔ اس نے بغیر کسی تردد کے تمہیں اٹھا لیا تھا۔ اس کا مطلب ہے اس کے اندر اتنی روحانی قوت ہے کہ تمہیں اٹھاتے ہوئے اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جس انداز میں تم گرنے لگے تھے تمہیں چوٹ لگ سکتی تھی مگر اللہ کے اس سائیں نے تمہارا بال بیکا نہیں ہونے دیا“
”آپ کون ہیں“ وہ خاموش ہوا تو میں نے دریافت کیا۔ غازی اب اٹھ کر اس قبر کے پاس جا بیٹھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے ہم باتیں کر رہے تھے۔
”میں تو اس مزار پر آتا رہتا ہوں مجھے بڑا سکون ملتا ہے یہاں برسوں سے ادھر آتا ہوں اور سکون بھر کر لے جاتا ہوں“ اس نے عقیدت سے مزار کے گنبد پر روشن رنگین ٹیوب لائٹس کی طرف دیکھا اور پھر حسرت بھرے لہجے میں بولا ”سکون تو مل جاتا ہے لیکن من کی مراد پوری نہیں ہو رہی۔ میرے دکھوں کی چادر ابھی تک میلی ہے۔یہ نہیںدھلے ۔ اصل مراد پوری نہیں ہو رہی“
”آپ کا نام کیا ہے“
”بیٹے .... میرا نام اصغر شیخ ہے۔ میں ایک معلم ہوں۔ یہاں کالج میں اردو پڑھاتا ہوں۔ بیٹا ایک وقت تھا جب میں مزاروں پر نہیں آتا تھا۔ پھر مجھے ایک بزرگ ملے۔ وہ بھی اس صاحب مزار کے عقیدت مند تھے۔ ان کے وصال کے بعد میں بھی یہاں آنے لگا۔ ان کے ساتھ آتا تھا‘ تو یہاں بزرگوں کی کرامات سنتا۔ نذر نیاز کرتا۔ میری اولاد نہیں ہوتی تھی۔ پانچ سال بعد اللہ نے ایک بیٹی دی۔ میں نے منت یہاں چڑھائی۔ اب دس سال ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ میرے دل میں اولاد نرینہ کی خواہش جڑ پکڑ چکی ہے۔ میں ہر جمعرات کو خاص طور پر یہاں آتا ہوں اور جو بھی اللہ والا ملتا ہے اس سے دعا کراتا ہوں۔ ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا کہ اب میری بیوی کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ عزیز رشتہ داروں نے کہا دوسری شادی کر لو۔ میں نے دو سال پہلے دوسری شادی کی تھی لیکن اس سے اولاد نہیں ہوئی۔ اب احساس جرم بھی رہتا ہے کہ میں نے پہلی بیوی کی بے قدری کی اور اولاد نرینہ کے لئے دوسری بیوی کر لی لیکن ہری بھری شاخ بھی سوکھ گئی۔ میں اب اس امید پر دئیے جلاتا ہوں کہ ایک دن میری شاخ مراد پھر سے ہری ہو جائے گیِِِ“۔ اصغر شیخ کے لہجے میں امید بھی تھی اور احساس جرم بھی۔ دونوں ہاتھ تھام کر بولا ”بیٹے اگر تمہارا اس سائیں سے کوئی تعلق واسطہ ہے تو اسے کہو میرے لئے دعا کرے“
”محترم! میں اس سائیں کو نہیں جانتا“ میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا اور کہا ”میں بھی آپ کی طرح عقیدت مند ہوں میں ادھر بیٹھا ہوا تھا کہ یہ بچہ بھی ادھر آ گیا“
”تمہیں معلوم ہے اس صاحب مزار کی کرامات اور تصوف میں پہنچ کا یہ عالم ہے کہ جنات بھی ان کے مزار پر حاضری دیتے اور جاروب کشی کرتے ہیں۔ ان کے خدمت گاروں میں بھی جنات ہوا کرتے تھے۔ صاحب مزار جب درس تصوف دیتے تھے تو جنات قطار باندھ کر کھڑے رہتے تھے“
”کیا آپ نے صاحب مزار کو دیکھا ہے“ میں نے پوچھا
”نہیں بیٹے وہ تو ایک صدی پہلے وصال فرما گئے تھے۔ مجھے یہ باتیں میرے بزرگ سنایا کرتے تھے‘ ‘ اصغر شیخ نہایت ادب سے کہنے لگے ”حق مغفرت کرے میرے بزرگ دوست آغا حامدی خود بھی صاحب کرامت تھے تہجد اور شب گزار تھے۔ شریعت کے پابند ایسے ولی اللہ تھے کہ ہر وقت ان کے چہرے پر بشاشت کا نور چمکتا نظر آتا۔ جودوسخا کے مالک تھے“
اس دوران غازی دوبارہ بابا شاہ کی گردان کرنے لگا۔ میں اور اصغر شیخ اس کے پاس چلے گئے۔ نہ جانے میرے دل میں کیا آیا میں نے غازی سے کہا ”بابا شاہ۔ یہ ہمارے استاد ہیں ان کے لئے دعا کرو اللہ انہیں بیٹا عطا کرے“
غازی نے مجذوبانہ نظروں سے اصغر شیخ کو دیکھا پھر ایک شان سے سر ہلا کر بولا ”جا .... جا .... وہ دے گا“
اصغر شیخ یہ سن کر خوشی سے پاگل ہو گیا آگے بڑھا اور والہانہ انداز میں غازی کے میلے کچیلے ہاتھوں پر بوسے دینے لگا۔ غازی نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور ایک بار پھر میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگا ”اب جا .... دفع دور ہو جا“ غازی نے اسے ایک طرح سے دھتکار کر اٹھایا .... اصغر شیخ بڑا خوش تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو
”ہاں بھیا اب سناﺅ ۔ دیکھا ایک پروفیسر بھی شرع و شریعت کو بھول گیا۔ تم ایک عام سیدھے سادھے مسلمان کو کیا کہو گے“
”غازی اس میں اس بیچارے کا زیادہ قصور نہیں ہے۔ تم نے بہروپ بھر کر اسے اکسایا“
”میں نے اکسایا ۔ ارے بھیا یہ لوگ تو اکسنے پر ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ انسان کی مجبوریاں‘ خواہشیں‘ بے قراریاں اور مایوسیاں اس کو قبروں پر ماتھے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہیں“ غازی بولا
”یہ تو اندھیروں کے مارے لوگ ہیں۔ جہاں روشنی ملے گی یہ اس سراب کی طرف چل دیں گے۔ تم انہیں روشنی بن کر اپنی طرف نہ بلایا کرو۔ وہ ذات کبریا .... جو مشعل راہ ہے انہیں اس طرف ہی جھکنا چاہئے۔ ہاں بزرگوں کی مغفرت اور ان کی دعاﺅں کے لئے حاضریاں ہو جائیں تو غلط نہیں“ یہ کہتے کہتے مجھے ایک گھن آلود خیال آ گیا ”کمبخت تو نے میرے چہرے پر بھی تھوک دیا تھا“ یہ سن کر غازی ایک بار پھر ہنسنے لگا اور بولا ”بھیا میں مجذوب جو ٹھہرا .... مجھے تو معلوم ہی نہیں ہوتا“
”تو باز آ جا غازی .... تری انہی شرارتوں کی وجہ سے یہاں کے بزرگ خفا ہیں“ میں نے اسے بتایا ”سرکار تیلے شاہ اس وقت مزار کے اندر عبادات میں مصروف ہیں“
”میں جانتا ہوں لیکن آج وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ آج جنات اپنے بزرگوں کے ساتھ یہاں حاضری دے رہے ہیں۔ ان کی بیبیاں بھی ساتھ آئی ہیں“
”کن کی بیبیاں ....“ میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔اس کے چہرے پر عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔
”جنات کی .... ہماری بیبیاں“ وہ بولا
”یعنی جن زادیاں“ میں نے استفسار کیا
”جی ہاں .... لیکن وہ ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ البتہ ایک دو بزرگ جن زادیاں ملنگنیوں کے روپ میں ہوں گی“
”باقی انسانوں کے روپ میں کیوں نہیں ظاہر ہوتیں“
”نہیں .... انہیں اس کی اجازت نہیں ملی“
”اجازت .... کیوں نہیں ملی“ میں نے حیرت سے سوال کیا
”بابا جی سرکار نے منع کیا تھا۔ میں تو برسوں سے یہاں اسی روپ میں آ رہا ہوں اس لئے بابا جی سرکار نے مجھے کچھ نہیں کیا۔ بابا جی سرکار کے علاوہ دوسرا کوئی بھی جن انسانی روپ میں نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا پورا گروہ اس درخت اور مزار کے اردگرد موجود ہے“ میں نے غازی کے اشارہ کرنے پر چند قدم دور بیری کے ایک بوڑھے درخت کی طرف دیکھا جس کی شاخوں پر رنگ برنگے دھاگے اور کپڑوں کے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے۔
”بھیا یہ بیری کا درخت بھی کراماتی درخت ہے“ غازی نے کہا ”جو اس کا بیر کھاتا ہے اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ اس لئے زیادہ تر عورتیں ہی اس بیری پر آ کر دھاگے اور کپڑے باندھتی ہیں۔ کچھ تو اس کی جڑوں میں چاول اور چینی ڈال جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں درخت پر چڑھنے والے کیڑے مکوڑے یہ خوراک کھائیں گے تو ان کی شجر مراد کی لاج بڑھ جائے گی اس لئے تو صاحب مزار کو بیری والا پیر بھی کہا جاتا ہے“
”بیری والا پیر“ میں زیر لب بڑبڑایا۔ یہ نام پہلی بار سن رہا تھا۔
”ہاں .... صاحب مزار بڑے روشن ضمیر ولی اللہ تھے۔ وہ اس کے نیچے بیٹھ کر عبادت اور تبلیغ کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ درخت بھی معتبر بن گیا۔ اس درخت پر پھل بہت کم لگتا ہے۔ یہ بھی ایک کرامت ہے کہ اگر اسے پھل لگ بھی جائے تو ہر کسی کو نظر نہیں آتا۔ صرف وہ انسان ہی اس پھل کو دیکھ سکتا ہے جس کی مراد پوری ہونے کا وقت آ پہنچا ہو“
”اللہ تیری شان“ میں غازی کی بات سن کر بیری والے درخت کی طرف جانے کے لئے اٹھنے لگا کہ ایک ادھورا سوال پھر میرے ذہن میں کلبلانے لگا۔
”غازی تم نے میرے پہلے سوال کا جواب نہیں دیا تھا“
”اچھا .... ہاں .... وہی سوال .... ہاں میں تمہیں بتا دیتا ہوں“ غازی اب کی بار سنجیدہ ہو کر بتانے لگا ”بھیا آپ نے پوچھا تھا کہ وظائف پڑھنے کے باوجود جنات اور شیطان دفع دور کیوں نہیں ہوتے۔ اس کا ایک جواب تو آپ کو مل چکا ہے۔ دوسرا سوال ہماری ذات سے متعلقہ تھا۔ آپ کا کہنا ہے کہ جب ہماری حاضری ہوتی تھی تو آپ وظائف پڑھتے تھے اس پر میں ہنس پڑا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم مسلمان جنات ہیں۔ ہمارے من میں ابلیس کی گندگی نہیں اس لئے ایک سچا مسلمان جن بشرطیکہ کوئی غلط حرکت نہ کر رہا ہو تو اسے ان وظائف سے نقصان نہیں پہنچتا لیکن میں تمہیں ایک وظیفہ بتاتا ہوں۔ اگر تم یہ پڑھ کر مسلمان جنات پر بھی پھونک مارو گے تو تمہیں اس کا ثبوت مل جائے گا کہ تمہیں جس شخص پر جن ہونے کا شبہ ہے وہ اپنی اصلیت ظاہر کر دے گا“ غازی نے مجھے وظیفہ بتایا یہ قرآن پاک کی آیت تھی جسے میں بچپن سے پڑھتا آ رہا تھا لیکن اس کے ساتھ غازی نے مجھے ایک اور آیت مبارکہ پڑھنے کے لئے کہا۔
”اب میں یہ وظیفہ پڑھ کر تم پر پھونک ماروں گا“ میں نے غازی کو چھیڑا ”تاکہ تم اپنی شکل میں ظاہر ہو جاﺅ“
”ارے بھیا یہ حرکت نہ کرنا ورنہ بابا جی سرکار اتنے جوتے ماریں گے کہ پھر ترستے ہی رہ جاﺅ گے اور میں تمہارے سامنے نہ آﺅ ں گا“ غازی نے میرے ہاتھ پکڑ لئے۔
”کیوں ایسی بھی کیا بات ہے“ میں نے کہا
”ہے ناں مسئلہ“ وہ زور دے کر بولا ”بابا جی سرکار کا کہنا ہے کہ انسان وعدہ کرکے مکر جاتا ہے اور وظائف کا غلط استعمال شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے وہ کسی کو ایسا وظیفہ پڑھنے کے لئے نہیں دیتے۔ جب تک کوئی انسان ریاضت کی بھٹی میں پک کر کندن نہیں ہو جاتا تب تک اسے وظائف کی حقیقی معراج نہیں ملتی“ غازی کی بات میں واقعی بڑی دلیل تھی۔ میں نے اس کی بات مان لی اور پھر ہم دونوں مزار کے اندر جانے کے لئے اٹھ پڑے۔ میرے ذہن میں ان لوگوں کو دیکھنے کی خواہش مچل رہی تھی جو بیری والا پیر کے عقیدت مندوں کے روپ میں مزار کے احاطے میں محو عبادت تھے۔
مزار کے احاطے میں اگربتیوں کی سحرانگیز مہک نے ہمارا استقبال کیا۔ کالی شیشم کے منقش دروازے سے اندر داخل ہونے کے لئے تقریباً سر اور کاندھے جھکا کر اندر داخل ہونا پڑتا تھا۔ دروازے پر مغلائی خطاطی سے بیری والے پیرر کا نام اور القابات لکھے ہوئے تھے۔ میں اندر داخل ہونے لگا تو ایک مجاور کہیں سے نکل کر ادھر آ گیا۔ اس نے غازی کو قیمض کے کالر سے پکڑ لیا اور درشت لہجے میں بولا۔
”تو کدھر جاتا ہے سائیں۔ چل ادھر دیگوں کے پاس“
غازی نے غیر محسوس انداز میں مجھے آنکھ ماری اور منہ کھول کر مجاور کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹوں کے کناروں سے رالیں ٹپکنے لگیں۔ آنکھیں کھچ گئیں۔ بدن پر تشنج کے آثار نظر آنے لگے۔ وہ ہمک ہمک کر مجاور سے غیر مانوس زبان میں کچھ کہنے لگا۔ مجاور کو اس کی باتوں کی سمجھ نہ آئی تو اس نے پاس سے گزرنے والے دربار کے ایک ملنگ کو بلایا اور کہا ”سائیں کو لنگرخانے میں لے جاﺅ۔ ناپاک حالت میں مزار کے اندر جانا چاہتا ہے“

بتیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں