بیرون ممالک سے چھٹی پر آنے والے پاکستانی شہری واپس کیوں نہیں جا پا رہے؟

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )ایک خلیجی ملک میں ایک ریستوران پر کام کرنے والے معظم علی (فرضی نام) تین ماہ قبل پاکستان پہنچے۔ وہ پاکستان میں 10 سے 15 روز اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس اس خلیجی ملک جانے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے۔تاہم انہیں ایئرپورٹ پر سفر کرنے سے اس لئے روک دیا گیا کیوں کہ ان کا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں شامل تھا۔
اردو نیوز کے مطابق معظم علی کے لئے بھی ان کا نام یوں پی سی ایل میں موجود ہونا حیران کن تھا کیوںکہ وہ قانونی راستے ہی سے بیرونِ ملک گئے تھے اور پھر 15 دن قبل ہی واپس پاکستان لوٹے تھے۔معظم علی کا نام سرِدست پی سی ایل میں شامل ہے اور وہ بیرون ملک سفر کرنے کے لئے اہل نہیں۔ انہیں اب یہ شبہ ہے کہ کام پر واپس نہ جانے کی وجہ سے ان کا ورک پرمٹ منسوخ کر دیا جائے گا اور ممکن ہے کہ ان پر خلیجی ملک جانے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے۔معظم علی کی طرح ایسے بیسیوں شہری منظر عام پر آ چکے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بیرونِ ملک کام سے چھٹی ملنے پر پاکستان واپس آئے ہیں تاہم چھٹی ختم ہونے پر انہیں واپس بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
دوسری جانب پاکستان کا محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ اس دعوے کو مسترد کر رہا ہے کہ بیرونِ ملک کام کرنے والے شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے سفر کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ مصطفیٰ جمال قاضی نے اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’حالیہ دنوں میں ایسے بہت سے شہریوں کو مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے جو وہاں کسی قسم کی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث تھے اور محکمہ پاسپورٹ نے مختلف ممالک کی جانب سے معلومات موصول ہونے پر ایسے شہریوں کا نام پی سی ایل میں شامل کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے یہ شکایات موصول ہوتی رہی ہیں کہ پاکستانی شہری اپنے پاسپورٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاسپورٹ آفس ان شکایات اور پھر عام شہریوں کے لئے ویزا سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لئے مخصوص افراد کے خلاف یہ کارروائی عمل میں لایا ہے۔‘
کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ بیرونِ ملک کام سے چھٹی ملنے پر پاکستان واپس آئے ہیں تاہم اب انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’محکمہ پاسپورٹ نے ایسے شہریوں کے نام پی سی ایل میں ڈال کر ا±نہیں پاکستان ڈی پورٹ کروایا ہے اور اب وہ بیرونِ ملک کا سفر نہیں کر سکتے۔‘
مصطفیٰ جمال قاضی نے پی سی ایل میں نام شامل کرنے کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’جو پاکستانی شہری غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرتے ہوئے انہیں باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔‘
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر میجر (ریٹائرڈ) بیرسٹر محمد ساجد مجید بیرون ممالک جانے والے شہریوں کا نام پی سی ایل میں موجود ہونے کے معاملے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے شہریوں پر مختلف وجوہات کی بنیاد پر سفری پابندیوں کا اطلاق عمل میں لایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر ممنوعہ مواد کی تشہیر، کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ وابستگی اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث شہریوں پر بھی سفری پابندیاں عائد کی ہیں۔‘
بیرسٹر محمد ساجد نے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان سے بیرون ملک جانے والے ورکرز پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس حاصل نہیں کرتے جو ان کے بیرونِ ملک سے ڈی پورٹ ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔‘
’شہریوں نے اگر بیرونِ ملک براہِ راست روزگار حاصل کیا ہے اور پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس کا حصول ممکن نہیں بنایا تو انہیں بیرون ملک مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پھر ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں ان کا نام پی سی ایل میں شامل کر کے ان پر سفری پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔‘
بیرسٹر محمد ساجد نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث شہریوں کے نام پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’پروٹیکٹوریٹ آف امیگریشن سے انشورنس کا حصول ممکن بنانے سے شہری 2500 روپے میں 10 لاکھ تک کی انشورنس حاصل کر سکتے ہیں جو بیرونِ ملک کسی حادثے کی صورت میں ا±ن کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔‘
ڈپلومیٹک اور امیگریشن قوانین کے ماہر نے مزید کہا کہ ’اِن دنوں حساس ادارے سوشل میڈیا یا کسی اور پلیٹ فارم پر ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث شہریوں کی معلومات محکمہ داخلہ کو فراہم کر دیتے ہیں جس کے بعد خاموشی سے ان کے نام پی سی ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں اور پھر وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔