تحریک ِتحفظ ِختمِ نبوت کے قائد جمعیت علمائے پاکستان کے بانی صدر علامہ ابوالحسنات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق خان قادری
مفسرِ قرآن حضرت علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃاللہ علیہ کا شمار ان اکابرمیں ہوتا ہے جنھوں نے مسلمانانِ برِصغیر کی بروقت دینی اور سیاسی رہنمائی کی اور تحریک ِپاکستان، تحریک ِختم نبوت اور تحریک ِآزادی کشمیر میں قائدانہ خدمات سرانجام دیں اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اور مجاہد ِملت مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہما کے ہمراہ قراردادِ مقاصد کی ترتیب و تدوین میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے تفسیر الحسنات کے علاوہ متعدد کتب بھی تصنیف فرمائیں جو بہترین علمی، ادبی اور تحقیقی شاہکار ہیں۔آپ کی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔
آپ کا تعلق مشہدِ مقدس کے سادات خانوادے سے ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا سیددیدار علی شاہ رحمۃللہ علیہ عظیم محدث اور مفسر تھے۔ آپ کا خاندان مشہد ِ مقدس سے ہجرت کرکے ریاست الور میں وارد ہوا۔ آپ کی ولادت 1896ء میں محلہ نواب پورہ الور (بھارت) میں ہوئی۔ 12 سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو، عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کی۔ پھر تمام علوم و فنون اپنے والد ماجد مولانا سید دیدار علی شاہ، مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہم سے حاصل کیے۔ جبکہ شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین کچھوچھہ شریف سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔
1926ء میں آپ اہالیانِ لاہور کی درخواست پر لاہور تشریف لائے اور تاریخی مسجد وزیر خان کی خطابت کے فرائض سنبھالے اور تادمِ زیست اس منصب پر فائز رہے۔ آپ کے دور میں مسجد وزیر خان اپنی تاریخی شکوہ و عظمت کے ساتھ علمی، ادبی،دینی،تبلیغی اور سماجی سرگرمیوں کا بھی مرکز بن گئی۔ اہلیانِ لاہور کے علاوہ دور دراز علاقوں سے عوام و خواص مسجد وزیر خان پہنچتے اور آپ کے سحرِ خطابت سے مسحور ہوتے۔ ہزار وں غیرمسلم آپ کے دست ِحق پرست پر دولت ِاسلام سے مالا مال ہوئے۔
علامہ ابوالحسنات قادری نے تحریک ِپاکستان میں شاندار خدمات سرانجام دیں۔ 1936ء میں مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا اور اس کے پروگرام کو عوام تک پہنچانے کے لیے شب و روز کوشاں رہے۔ علمائے پنجاب میں سب سے پہلے آپ ہی نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا۔ 1940ء میں جب منٹو پارک (اقبال پارک) لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو آپ اس جلسہ کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ آپ نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کرکے نظریہئ پاکستان کی حمایت میں قلمی محاذ سنبھالا۔ روزنامہ ”احسان“ لاہور میں نظریہئ پاکستان کی حمایت میں ایک طویل مضمون پانچ قسطوں میں شائع کرایا۔ آپ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ،امیرِ ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری اور پیر صاحب مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہم کے ساتھ مل کر ملک گیر دورے کرکے عوام کو نظریہئ پاکستان سے روشناس کیا اور پاکستان کی حمایت کا جذبہ پیدا کیا۔1945ء میں فریضہئ حج ادا کرنے کے لیے سعودی عرب تشریف لے گئے تو وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے علماء اور حج وفود کے اجتماعات میں تحریک ِپاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور علمائے اسلام کو قرار دادِ پاکستان کے نظریات پر متفق کرکے عملی تعاون پر آمادہ کیا۔
آپ نے اپریل 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ بحیثیت صدر پنجاب سنی کانفرنس اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ، پورا کیا اور واپس آکر پنجاب کے کونے کونے میں مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان میں پاکستان بھر کے علماء و مشائخ کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں ”جمعیت علمائے پاکستان“ کا قیام عمل میں آیا جس کے آپ پہلے صدراور غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمۃ ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔
1948ء میں جب آزادیئ کشمیر کی تحریک شروع ہوئی تو آپ نے اپنی مساعیِ جمیلہ آزادیئ کشمیر کے لیے وقف کردیں۔18جنوری 1953ء کو آل پارٹیز مسلم کنونشن میں مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس میں مختلف مکاتب ِفکر کے جیدعلماء سید عطاء اللہ شاہ بخاری، سید داؤد غزنوی اور سید مظفر علی شمسی سمیت دیگر مذہبی دینی جماعتوں کے قائدین نے آپ کو متفقہ طور پر مجلسِ عمل تحریک ِتحفظِ ختمِ نبوت کا صدر نامزد کیا۔اس تحریک کے دوران آپ نے ملک کے طول و عرض کے دورے کیے۔ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے 26اور 27فروری 1953ء کی درمیانی شب 3بجے دیگر علماء کے ہمراہ آپ کو گرفتار کیا گیااور سکیورٹی ایکٹ کے تحت ایک سال کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد آپ کو حیدرآباد اور پھر سکھر سنٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ جہاں اس وقت درجہ حرارت 5O ڈگری تھا۔علامہ ابوالحسنات قادری کو دیگر قائدین کے ہمراہ 8مربع فٹ کی ایک کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ پھر سکھر سنٹرل جیل سے لاہور منتقل کردیا گیا، جہاں انھیں تحقیقاتی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ آپ کی گرفتاری کے بعد آپ کے قابلِ فخر فرزند امین الحسنات سید خلیل احمد قادری نے تحریک کی قیادت سنبھالی لیکن پنجاب حکومت نے انھیں بھی مسجد وزیرخان سے گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہورکے عقوبت خانے (ٹارچر سیل) میں بند کردیا۔ جیل میں مولانا کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ ان کے اکلوتے فرزند مولانا امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو تحریک ِختمِ نبوت میں سرگرم حصہ لینے کی بنیاد پر سزائے موت سنادی گئی ہے تو مولانا نے نہایت استقامت سے فرمایا ”جو اللہ کو منظور“ پھردعافرمائی کہ ”اے اللہ! میرے خلیل کی قربانی کو قبول فرما“ اس فقرے میں آپ کے صبر و شکر اور استقامت وعزیمت کی پوری جھلک موجود ہے۔
قید وبند کے دوران آپ نے تفسیر الحسنات کے 8پارے مکمل کیے۔ بقیہ پارے اپنی رہائی کے بعد مکمل کیے۔ آپ نے انتقال سے دو روز پہلے تفسیر الحسنات مکمل فرمائی۔ صبر و استقامت کے اس پیکرِ جمیل نے 2شعبان المعظم 1380ھ (20جنوری 1961ء جمعتہ المبارک) کو 12بجے دن داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ مخدوم الاولیاء حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمۃ سے بے پناہ عقیدت و محبت اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو حضرت داتا صاحب کے مزار پر انوار کے احاطے میں شرقی جانب سپرد خاک کیا گیا۔
final