شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 58
مجھے کسی ذریعہ سے طالب عم کا یہ اعتراض پیش کرنا معلوم ہو گیا تھا۔ میں نے اس کا جواب مفتی اعجاز زولیخاں بریلوی سے بھی پوچھا لیکن ان کے جواب سے میری تشفی نہ ہوئی۔
رات کو جب میں اسی خیال میں محو ہو کر سو گیا تو خواب میں حضرت قطب الاقطابؒ کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا اس اعتراض کا جواب یہ ہے۔
’’جزی سے کلی تو مراد لیا جا سکتا ہے لیکن جزی حقیقی سے کلی مراد نہیں لیا جا سکتا کیونکہ جزی حقیقی مع الشخص ماہیت کیلئے وضع ہے جو ایک ہی فرد پر صادق آ سکتی ہے اور ایک ہی مفہوم مراد لیا جا سکتا ہے‘‘۔
راوی مذکور نے یہ بیان کیا کہ مجھے بارہا ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب کبھی کوئی مشکل مسئلہ پیش آیا تو حضور نے دستگیری فرما کر اسے حل کر دیا۔
شہنشاہ اکبر کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل آپؒ نے اپنے بڑے صاحبزادے پیر عالم شاہ کو فرمایا تھا کہ چکسواری والوں کے ساتھ بالخصوص کریم بخش نمبردار سے ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آنا۔عالمی مبلغ اسلام حضرت پیر سید معروف حسین عارف قادری نوشاہی فرماتے ہیں کہ انکے والد بزرگوارحضرت سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ نے اپنی اولاد کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیا تھا۔آپؒ نے وصال سے پہلے مجھے قطب الارشاد حضرت سید ابوالکمال برقؒ اور برادر سید غلام سرور شاہ کو پیر عالمشاہ کے سپرد کرکے فرمایا تھا کہ اپنے بھائیوں کی علمی و باطنی کفالت کرنا بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔حضرت سیدنا پیر برقؒ میرے مرشد بھی تھے لہذا مجھ پر ان کا احترام و ادب زیادہ واجب تھا۔برادران نے اپنے والد گرامی حضرت سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ سے کیا عہد نبھایااور انکی تعلیم و تربیت و کفالت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔
قطب الاقطاب فرد الاحباب حضرت سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ نے اپنی وفات کی اطلاع قبل از وقت ہی دے دی تھی۔
آپ نے 9 مارچ 1947ء کی درمیانی شب میں چار بجکر 10 منٹ پر تین بار بآواز بلند کلمہ شریف پڑھ کر داعی اجل کو لبیک کہا۔
آپ کی نماز جنازہ راقم الحروف(حضرت سید ابوالکمال برقؒ ) نے پڑھائی تھی۔ مزار اقدس گورستان نوشاہیہ چکسواری شریف میں سرکار بحر العلومؒ کی پائنتی کی طرف ہے۔
قبر مبارک میں روشنی
اگرچہ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو دن کے تقریباً ساڑھے دس بجے ہی لحد میں اتار دیا گیا تھا لیکن زائرین کی کثرت کی وجہ سے رات کو دفنایا گیا۔
آپؒ کے وصال پر حضرت سید ابولکمال برقؒ نے قطعہ وصال یوں تحریر فرمایا تھا۔
چراغ دیں محمد قطب الاقطاب
امام الولیاء و فرد احباب
امیر کارواں شمس طریقت
جنید دہر شہباز حقیقت
بہ بزم اصفیا بالا نشیں بود
بذیل اتقیا ماہ مبیں بود
زفیضانش جہاں معمور کشتہ
زمیں چکسواری طور گشتہ
چوں رخت سفر بست از دارفانی
محی الدین آیات ربانی
زوصلش صدمہ جانکاہ رسیں
دلم درآتش فرقش تپیدہ
چوں ابر نو بہاراں گریہ زارم
دریغا! حسرتا! وا! بے قرارم
سراج ملت بیضا نماندہ
امام حجت کبریٰ نماندہ
منم وارفتہ درہجرت بنالم
کجائی! آہ کجائی؟ قبلہ عالم
بیا! اے راہبر نوشاہ عالم
بیا اے نائب فخر دو عالم
بیا اے حامل فقر نوشاہی
بیا! اے مظہر عون الٰہی
بیا! بنگر احوال برق مضطر
کہ در فرقت بسے آشفتہ خاطر
دریغا! رحلت غوث زماں شد
روان او سو مے جنت رواں شد
بگفتم ہاتفا! وصلش بجوئی
بگفتا نہضت سالک بگوئی
حضرت سیدہ ام البرکات ؒ
رابعہ دوراں حضرت سیدہ ام البرکات عنایت فاطمہ اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں۔ حضرت قطب الاقطاب سید چراغ محمد شاہ قدس سرہ کی زوجیت میں آنے کے بعد نقر و روحانیت کی منزلیں بڑی تیزی سے طے فرمائیں اور رابعہ دوراں قرار پائیں ۔
رابعہ دوراں کا خاندان
رابعہ دوراں حضرت سیدہ ام البرکاتؒ کے آباؤ اجداد علم و فضل کی وجہ سے علاقہ بھر میں ممتاز تھے اور کئی پشتوں سے خاندان نوشاہی کے حلقہ بگوش چلے آتے تھے۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد عبداللہ ہاشمی سرکار بحرالعلوم قدس سرہ کے بڑے مخلص عقیدت مند تھے۔ آپ کا خاندان پیشہ کے لحاظ سے کاشتکار اور نسب کے لحاظ سے اسدی ہاشمی خانوادہ کی شاخ ہیں۔
حضرت محمد عبداللہ ہاشمی موضع لدڑ میں بڑے بااثر اور صاحب ثروت بزرگ تھے۔ آپ علوم دینیہ میں اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے ۔ نماز روزہ اور دیگر احکام شرعیہ کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے آپ کی ایک دختر تھی جس کا نام خانم بی بی تھا جو موضع بوعہ کے ایک بزرگ (جو حافظ قرآن اور عالم تھے) کے حلقہ زوجیت میں تھی۔آپ کی دوسری بیوی کا نام عالم بی بی تھا۔ اس کے بطن سے تین صاحبزادے اوّل مولا داد، دوم محمد غالب سوم عبدالخالق اور دو صاحبزادیاں اول سیدہ ام البرکات عنایت فاطمہ،دوم محترمہ شاہ بیگم تھیں۔ حضرت محمد عبداللہ ہاشمی کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھا۔ آپ کا مزار مبارک موضع لدڑ کے قبرستان میں ہے۔
تاریخ ولادت سیدہ ام البرکات ؒ
حضرت سیدہ ام البرکاتؒ مورخہ۲۷ رجب ۱۲۹۸ھ میں موضع لدڑ ضلع میر پور میں پیدا ہوئی تھیں۔
خصائص و فضائل
حضرت سیدہ ام البرکات کو دینی علوم میں کافی دسترس تھی اور قرآن مجید کا اکثر حصہ آپ کو زبانی یاد تھا۔ فقہ کی مشہور کتاب انواع عبداللہ اور رسالہ نافع صلوٰۃ بھی آپ کو ازبر تھا۔ آپ نے حضرت سیدہ حافظہ حسن بی بی کو وفات کے بعد ان کی قائم کردہ دینی درسگاہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مدت العمر اس فریضہ کو سر انجام دیتی رہیں۔ چک سواری شریف اور اس کے مضافات کے سینکڑوں بچوں نے آپ سے قرآن مجید پڑھا اور نماز روزہ کے مسائل سیکھے۔
حضرت سیدہ ام البرکات عارفہ کاملہ تھیں۔ آپ سے سینکڑوں کرامات کا صدور ہوا اور ہزاروں آدمی آپ کی دعا سے فیضیاب ہوئے۔ آپ عابدہ زاہدہ اور شب بیدار تھیں۔ علاقہ کے لوگ مصائب کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بہرہ ور ہوتے تھے۔ آپ نے چھ ماہ قبل اپنی وفات کی اطلاع دے دی تھی اور وفات سے پندرہ روز پہلے بتا دیا تھا کہ میرا انتقال ۲۱ رمضان المبارک کو دس بج کر ترپن منٹ پر ہوگا۔ چنانچہ عین اسی وقت آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
سیدہ ام البرکات کی وفات
حضرت سیدہ ام البرکات مورخہ ۱۴۔۱۳ جنوری ۱۹۶۶ء ۲۲۔۲۱ رمضان مبارک ۱۳۸۵ھ بروز جمعہ ہفتہ درمیانی شب دس بج کر ۵۳ منٹ پر انتقال فرمایا۔(جاری ہے)