لاہور جرائم کی شرح میں کمی کے اصل اسباب

  لاہور جرائم کی شرح میں کمی کے اصل اسباب
  لاہور جرائم کی شرح میں کمی کے اصل اسباب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 چار روز قبل شائع ہونے والی کرائم ڈائری میں پولیس کی ورکنگ اور کارکردگی کو زیر بحث لاتے ہوئے بات چل رہی تھی کہ جو پولیس آفیسرسید ھا سیدھا کام کرتا ہے اور کارکردگی کے بل بوتے پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو جانے پر اسے کسی کا ڈر خوف نہیں رہتا، اس کے افسران بھی اسے پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ادارے میں عزت پانے کے ساتھ وہ حکومت کی آنکھ کا بھی تارا بن جاتا ہے کیونکہ اس کی کارکردگی ادارے اور حکومت دونوں کے لیے گڈ گورننس کا باعث بن رہی ہوتی ہے۔ لاہور جو کہ صوبائی دارالحکومت بھی ہے اوریہاں کے حالات صوبہ بھر کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب سے بانی پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک صوبہ بھر بالخصوص لاہور میں امن وامان کی خراب صورتحال کو بحث بنا کر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف  اسے آڑے ہاتھوں لے رہی ہے اور لاہور میں جرائم کی شرح میں کمی کو مصنوعی قرار دیا جاتا رہا۔ ڈی آئی جی فیصل کامران نے لاہور میں جرائم کی شرح میں حقیقی کمی لاکر ادارے کی سربلندی کے ساتھ حکومت کو بھی سرخرو کیا ہے۔ ڈی آئی جی فیصل کامران نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی ہنگامی بنیادوں پر پولیس فورس کو بہتر بنانے کیلئے جو اقدامات شروع کیے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ بخوبی جانتے تھے کہ ان کے اہداف کیا ہیں اوراس حوالے سے ان کے سامنے پورا روڈ میپ موجود تھا۔اس سلسلے میں انہوں نے شہر میں ایس ایچ او لیول پر نہ تو بہت زیادہ تبدیلیاں کی ہیں، نہ ہی دوسرے اضلاع سے کسی کو لاکر یہاں تعینات کروایا ہے۔البتہ حرام خوراور موسمی ایس ایچ او صاحبان کا خوب تعاقب کیا گیا ہے۔ کرپٹ ایس ایچ اوز کے ساتھ اپنے دفتر سے ایک انسپکٹر اور آپریٹر کی چھٹی بھی کروا ئی گئی ہے جن کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ ان سیٹوں پر تعینات رہ کر موٹا مال کمانے میں مصروف تھے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے انی ڈال رکھی تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ جب میں نے پچھلی کرائم ڈائری میں ڈی آئی جی آفس سے ایک انسپکٹر کو مبینہ طور پر بھاری کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام میں وہاں سے نکا لنے کا تحریر کیا تو مجھے شہر بھر کے درجنوں نیک نام ایس ایچ اوز نے فون کر کے ڈی آئی جی کہ اس اقدام کو بے حد سراہا جبکہ کئی کھڈے لائن ایس ایچ اوز، یا ان دنوں آپریشن ونگ میں موجود نہیں فون پر کہنے لگے انسپکٹر کو تو صاحب نے ٹھیک ہی نکالا ہے ہمیں تو آپریٹر کو”صاحب“ کے نام کے روزانہ کی بنیاد پر پیسوں کا حساب دینا پڑتا تھا۔ مبینہ رشوت کے لیے ہوئے پیسوں سے ففٹی پرسنٹ پیسے دینا پڑتے تھے۔جب میں نے اس آپریٹر کا کھوج لگایا تو معلوم ہوا وہ بھی بڑی دیر سے یہاں سے شٹ اپ کال کے بعد فارغ کیا جا چکا ہے۔ فیصل کامران نے انتظامی افسران کو تبدیل کرتے ہوئے اپنی ٹیم تشکیل دیکر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت اور معاشرے میں امن و امان کا قیام پولیس کی اصل ذمہ داری ہے۔ جو یہ کام بخوبی اور صاف گوئی سے کرے گا وہی میری ٹیم کا حصہ رہے گا۔ انہوں نے پبلک سروس ڈلیوری اور پولیس کے انٹرنل اکاو نیٹبیلٹی کے نظام کو بہتر سے بہتر کرنا اپنی ترجیحات میں سرفہرست شامل قرار دیا تھا۔ ماتحت افسران و اہلکاروں کو بہتر سے بہتر پرفارمنس دینے ورنہ اپنے نہ صرف عہدوں سے ہاتھ دھونے بلکہ کڑے احتساب کا بھی سامنا کرنے کیلئے تیار رہنے کا حکم دیا۔ڈی آئی جی نے اپنے ایس پی صاحبان کو اپنے ایس ڈی پی اوز کی ورکنگ کی مانیٹرنگ کے علاوہ تھانوں کے اچانک دوروں کا بھی حکم دے رکھا ہے۔ انہوں نے پولیس حراست میں تشدد، دوران حراست ہلاکت یا غیر قانونی حراست کے واقعات کو سختی سے منع کیا ہے۔ فیصل کامران پولیس کے روایتی کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے بڑے سنجیدہ نظر آتے ہیں۔فیصل کامران نے اپنی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے جن افسران کا انتخاب کیا ہے ان میں سے زیادہ تر افسران کا تعلق سابق حکمرانوں سے ہے اور یہ پولیس افسران ان کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس کررہے ہیں کہ انہیں ایک اچھا،محنتی اوردباؤنہ لینے والے کمانڈر کی قیادت میسر آئی ہے ڈی آئی جی آپریشنز نے ایک ایسی صاف ستھری، غیرجانبدار، غیر سیاسی اور محب الوطن ٹیم تشکیل دی ہے۔فیصل کامران فیلڈ میں کام کرنے کا تجربہ اور وہ کامیاب آفیسر کے طور پر شہرت بھی رکھتے ہیں۔ ڈی آئی جی فیصل کامران ایک دیانت دار،محنتی،باہمت،ملنساز، اچھے کمانڈر اور کسی بھی قسم کا پریشر نہ لینے والے آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں،  فیصل کامران پختہ ارادوں کے مالک اور وہ اپنی قیادت کے دوران پولیس میں بہت کچھ کرنے کا عزم لے کر آئے ہیں۔ لاہور میں انوسٹی گیشن ونگ کی کارکردگی آپریشن پولیس سے بھی بہتر ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے یہ وہ ونگ ہے جہاں مقدمات کے اندراج کے بعد مدعی اور ملزم کے درمیان انصاف کا سفر شروع ہوتا ہے۔یہاں انصاف کی بجائے کاروبار جاری ہے۔ انصاف کا متلاشی ہر شخص اس ونگ کی بجائے آرگنائز کرائم میں تفتیش لے جانا چاہتا ہے  اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈی آئی جی ذیشان اصغر اور ایس ایس پی محمد نوید انتہائی  اچھی شہرت کے حامل ہیں لیکن ان کے دفتر میں موجود جس ٹیم نے انہیں حصار میں لے رکھا ہے وہ انتہائی بدنام اور بری شہرت کے حامل ہیں،ان اہلکاروں کی ڈی آئی جی انوسٹی گیشن دفتر میں موجودگی ان افسران کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔لاہور میں اگر جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے تو اس کا کریڈٹ فیصل کامران کے ساتھ ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور اور ان سے جڑے ہوئے افسران کو بھی جاتا ہے۔عمران کشور کی ٹیم نے بھی خطرناک اور وحشت کی علامت سمجھے جانے والے ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنا کر پیشہ ورانہ ہونے کا ثبوت دیا ہے ڈاکوؤں، چوروں کے ساتھ منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث ان ملزمان پر بھی ہاتھ ڈالا ہے جنہیں سابق ادوار میں گرفتار کرنے سے لاہور پولیس کے افسران گریزاں رہے۔ڈی آئی جی عمران کشور اور ان کی ٹیم کی محنت اور لگن کا یہ عالم ہے کہ شہر بھر میں کوئی سنگل مقدمہ ایسا نہیں ہے جو ان کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہو،بڑے گینگ، خطرناک ملزم اور منشیات کے بڑے ڈیلر گرفتار کرنے پر ڈی آئی جی عمران کشور اور انکی ٹیم لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ، آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے شاباش کے ساتھ انعام کے بھی مستحق ٹھہرے  ہیں۔آخر میں اگر نئے انے والے سی ٹی او ڈی آئی اطہر وحید  کے پیشہ ورانہ امور میں مہارت کی بات نہ کی جائے تو ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ ان کے بارے میں بھی یہ مشہور ہے کہ وہ کسی قسم کا دباؤ نہیں لیتے۔میرٹ اور انصاف کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں بطور چیف ٹریفک افیسر ان کی تعیناتی سے شہر میں ٹریفک کی روانگی اور نظم و ضبط میں بہتری کا امکان ہے۔ جی سب سے بڑھ کر یہ کریڈٹ لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ اور پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور کو بھی جاتا ہے، جنہوں نے اپنی محنت سے شہر کو امن کا گہوارہ بنا نے میں اپنے افسران کو بھرپور سپورٹ کیا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -