کیا بلاول بھٹو بطور ثالث اڈیالہ جیل جائیں گے؟

ہوا میں تیر چلانا ایک معروف محاورہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدف کی بجائے ہوا میں تیر چھوڑ دینا، جس طرح ہوائی فائرنگ ہوتی ہے۔ مجھے یہ محاورہ اس لئے یاد آیا کہ حکومت نے اس معاملے پر بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی قبول کرلی ہے کہ وہ تحریک انصاف سے سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے کی یقین دہانی حاصل کرلیں تو کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلایا جا سکتا ہے۔ ابھی تک تو یہی تاثر موجود تھا۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک پیچ پر ہیں، حکومت میں بھی اکٹھی ہیں، مگر اب معلوم ہوا ہے نہیں راستے جدا جدا ہیں، یہ ”حیرت انگیز“ خبر واقعی سب کو حیران کر گئی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری حکومت اور تحریک انصاف کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بٹھانے کے لئے ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ مزیداری کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ان کی ثالثی قبول بھی کرلی ہے۔ جب کوئی فریق ناراض ہو تو ساری توجہ اس با ت پر دی جاتی ہے، وہ کسی کی ثالثی قبول کرلے تاکہ شرائط طے کرکے معاملہ حل کیا جا سکے۔ یہاں حکومت کی طرف سے ثالث قبول کرنے کی بات تو ایک لطیفے سے زیادہ کچھ ہے ہی نہیں کیونکہ پیپلزپارٹی تو اس اجلاس میں شامل تھی جو تحریک انصاف کی شرکت کے بغیر ہوا اور اپنے مقاصد پورے نہ کر سکا۔ اس وقت ملک کوجس ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے،اس میں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک تحریک انصاف اپنی حمایت کا اعلان نہیں کرتی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے جو حالات ہیں، ان پر اگر یکساں قومی موقف سامنے لانا ہے تو دل بڑا کرنا ہو گا۔ یہاں دل بڑا کرنے کی بجائے چھوٹے دل کے ساتھ فیصلے کر کے بڑے نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کیا موجودہ حالات میں ایک ایسے ثالث کا کردار ادا کر سکیں گے جو جمی ہوئی برف کو پگھلا دیتا ہے اور ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ کہہ دینا کہ بلاول بھٹو زرداری پی ٹی آئی کی قیادت کے قومی مفاد میں پاؤں تک پکڑنے کو تیار ہیں ایک بے معنی سی بات ہے۔ اصل سوال یہ ہے ان کے ہاتھ میں مینڈیٹ کتنا ہے۔ غور طلب نکتہ یہ ہے پچھلے اجلاس میں تحریک انصاف نے عین وقت پر شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ اس سے پہلے وہ سپیکر کو اپنے وفد کے نام بھی دے چکی تھی۔ رکاوٹ ایک ہی بات بنی تھی کہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کو اجلاس میں شرکت کے لئے بلایا جائے۔ اس کے لئے یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ انہیں پیرول پر اجلاس میں شرکت کے لئے لایا جائے، لیکن عمران خان کو پردے میں رکھنے کا حکم اتنا سخت ہے کہ عدالتوں میں وڈیولنک کے ذریعے ان کی حاضری پر بھی قدغنیں لگ جاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا اور اجلاس یکطرفہ ثابت ہوا۔ بلوچستان کی جماعتیں بھی اس میں شریک نہ ہوئیں، خیبرپختونخوا کی نمائندگی بھی نہ ہو سکی، جن دو صوبوں کے بارے میں سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ہو، اس میں انہی کی نمائندگی نہ ہو تو بات کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اجلاس تو ہو گیا، کچھ نکات بھی منظور ہو گئے مگر ان کے پیچھے وہ سیاسی سپورٹ نہیں تھی جو ایسے بڑے اقدامات کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
اب اس بات کو ضروری محسوس کیا گیا ہے کہ سلامتی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلایا جا سکتا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکے تو یہ اچھی بات ہے، لیکن کیا صرف بلاول بھٹو زرداری کے سر پر اتنی بڑی ذمہ داری سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تحریک انصاف کی باہر جتنی بھی قیادت موجود ہے، اس میں اتنی طاقت اور اختیار نہیں کہ وہ کوئی پالیسی ساز فیصلے کر سکے۔ ایسے ہر فیصلے کی منظوری اڈیالہ جیل سے ملتی ہے، جہاں عمران خان موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری کو ثالث مانتے ہوئے اتنا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اڈیالہ جا کر عمران خان سے ملاقات کر سکیں اور انہیں قائل کر پائیں کہ تحریک انصاف کے وفد کو سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں ہو گا کہ وہ ملاقات کر سکیں۔اگر ملاقات کی اجازت مل بھی گئی تو عمران خان کو اس بات پر راضی کرنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ تحریک انصاف کے وفد کو مائنس عمران خان شرکت کی اجازت دے دیں۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا پورا ایجنڈا ہو اور وہ عمران خان سے اس پر بات کر سکیں، یہ بیل بھی منڈے چڑھتی نظر نہیں آتی تو پھر بات کیسے آگے بڑھے گی۔کیا حکومت صرف گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کو استعمال کرنا چاہتی ہے کہ دیکھو ہم نے پھر کوشش کی تھی اتفاق رائے پیدا ہو سکے لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے انکار کر دیا۔اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کا اتحاد بھی موجود ہے۔ ان سب کو راضی کرنا بلاول بھٹو زرداری کا بہت بڑا امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو یہ ان کے سیاسی کیرئیر میں ایک بڑی جیت ہوگی۔ ان کے بارے میں اس تاثر کو جنم دے گی کہ وہ چھوٹی عمر کے باوجود بڑی سیاست اور بڑے سیاسی معرکوں کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ ملک میں اَنا کی ایک ایسی جنگ جاری ہے، جس سے بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اچھا ہے کہ ثالثی کا ذکر ہونے لگا ہے، وگرنہ یہاں تو یہ حال ہے کہ ثالثی یا صلح کی بات تک کرنا ایک جنس نایاب بن چکا ہے۔اس حقیقت کو مان لیتے میں کیا حرج ہے کہ ملک میں ایک اپوزیشن بھی ہے۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قومی فیصلے یا آپریشن کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا نہ ہوا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف ماضی میں جتنے بھی فوجی آپریشن ہوئے پارلیمنٹ کی طرف سے ان کی منظوری دی گئی اور تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت بھی کی۔ اب ایک واضح تقسیم موجو دہےّ اس کی وجہ سے اس معاملے پر قومی وحدت کا فقدان ہے۔ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے بغیر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو تو گیا، مگر اس کی اہمیت وہ نہ بن سکی جس کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دوبارہ اجلا س کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سنجیدہ بات تو یہ ہوتی کہ خود حکومت تحریک انصاف سے رابطہ قائم کرکے اس کے تحفظات دور کرتی اور کچھ نہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کو عمران خان سے مشورہ کرنے کی کھلی چھوٹی دیتی۔ یہاں تو یہ ہوا کہ ملاقات تک نہیں کرنے دی گئی،جس کا نتیجہ اس بائیکاٹ کی صورت میں نکلا جو تحریک انصاف نے عین آخری وقت پر کیا۔ کیا بلاول بھٹو زرداری اس خلیج کو پاٹ سکیں گے جو صاف نظر آ رہی ہے۔کیا وہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اس بات پر قائل کر سکیں گے کہ وہ عمران خان کو چھوڑیں خود فیصلہ کریں، بلاول بھٹو زرداری کو حکومت نے تو ثالث مان لیا ہے، مگر اس کی زیادہ اہمیت نہیں، اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف بھی انہیں ثالث کا کردار سونپتی ہے یا نہیں، ظاہر ہے اس کا فیصلہ بھی اڈیالہ جیل سے ہی ہو گا۔