آئی ایم ایف کا علاج دعا نہیں دوا ہے

پوری قوم کی خواہش ہے آئی ایم ایف سے جان چھٹے، لیکن صاحبو! بلاؤں سے جان آسانی کے ساتھ تھوڑی چھٹتی ہے۔ کہنے کو وزیراعظم شہبازشریف نے یہ دُعا مانگی ہے آئی ایم ایف کا یہ پروگرام آخری ہو، مگر کیا صرف دعاؤں سے بات بن سکتی ہے۔آئی ایم ایف والے تو دعاؤں پر یقین نہیں رکھتے، وہ تو عملی اقدامات مانگتے ہیں، یہ کروگے تو قسط ملے گی یہ نہیں کرو گے تو قسط روک دیں گے۔ مجبوری اتنی زیادہ ہے کہ بجلی سستی کرنے کے لئے بھی التجاء منظور نہیں ہوئی اور خیرات کے طور پر صرف ایک روپیہ یونٹ بجلی سستی کرنے کی اجازت دی گئی ہے، یعنی کوئی مہینے بھر میں 200 یونٹس خرچ کرے تو 200روپے بچا لے جبکہ بل ہزاروں روپے دے۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے وارننگ دے دی ہے، شرائط پوری کیں تو قرضہ ملے گا وگرنہ آئی ایم ایف ٹھینگا دکھا دے گا،اب اس تناظر میں جب وزیراعظم شہبازشریف یہ دُعا مانگتے ہیں کہ خدایا یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو تو یہ دعا نہیں،بلکہ معجزے کی التجا ہوتی ہے۔ ایسا کون سا تیر ہم چلا رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے آنے والے ایک دو برسوں میں اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس جتنا زرِمبادلہ پڑا ہے وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی دین ہے۔ ہمارا تو بس برائے نام حصہ ہے۔ آئی ایم ایف جو قرضہ دیتا ہے اس سے معیشت چلتی ہے کیونکہ برادرز اسلامی ملکوں نے تو صرف شوشا کے لئے ادھار دے رکھا ہے۔ کوئی بتائے ملک میں سرمایہ کاری لائے بغیر قرضوں سے کیسے جان چھوٹ سکتی ہے، جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے تو ہماری پیداواری لاگت اتنی زیادہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی برآمدات کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتے،جہاں تک ملک کے اندر اخراجات میں کمی لانے کا تعلق ہے تو اس طرف ہماری اشرافیہ دیکھتی بھی نہیں۔ تنخواہیں بڑھ گئی ہیں، اب دیگر مراعات بھی چاہئیں۔ نئی گاڑیاں بھی درکار ہیں۔ غیرپیداواری اخراجات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کوئی ایک کل بھی سیدھی ہو تو بندہ امید رکھے کہ حالات بدل جائیں گے۔ سرمایہ کاری لانے کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے تھے۔ ایک نیا ادارہ بھی بنایا گیا تھا،مگر اعداد و شمار سامنے نہیں لائے گئے کہ کتنی سرمایہ کاری آئی ہے، کس شعبے میں آئی ہے اورکتنے منصوبے شروع بھی ہو چکے ہیں۔ہمارا اقتدار اعلیٰ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ایک فیصلہ بھی آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتے۔ گزشتہ دنوں عالمی منڈی میں تیل سستا ہونے کے باوجود پاکستانیوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم کابیان آیا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اِس لئے کمی نہیں کی گئی کہ عوام کو بجلی کی قیمت میں ریلیف دینے کا پروگرام ہے، مگر اب خبر آگئی ہے کہ بجلی کی قیمت صرف ایک روپیہ یونٹ کم ہوگی اسے کہتے ہیں گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ عوام پٹرول کی مد میں ریلیف سے بھی گئے اور بجلی کے بلوں میں رعایت نہیں ملی۔ ابھی نجانے آئی ایم ایف کے تکنیکی مشن نے چار اپریل کو پاکستان آکر آئندہ بجٹ کے حوالے سے کیا عذاب ڈھانا ہے۔انکار تو ہم کر نہیں سکتے کہ ترقی کے کھوکھلے دعوؤں کے سوا ہمارے پاس ہے ہی کچھ نہیں۔
ایک طرف آئی ایم ایف کی فرمائشوں نے خوف و دہشت کی فضا طاری کی ہوتی ہے تو دوسری طرف ملک میں بدامنی اور دہشت گردی منہ کھولے کھڑی ہے۔ بلوچستان میں حالات کشیدہ ہیں،ایک خاص منصوبے کے ذریعے ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں کہ دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو بلوچستان آنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے۔ خاص طور پر پنجابیوں کے لئے بلوچستان کو مقتل بنا دیا گیا ہے۔گوادر میں ایک مرتبہ پھر چھ پنجابیوں کو مسافر بس سے اتار کر قتل کر دیا گیا۔ملک کے دو صوبے بدامنی کی لپیٹ میں ہیں،جس سے پورے ملک میں ایک تشویش پائی جاتی ہے جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے،وہ ناپید نظر آتا ہے۔سلامتی کمیٹی کا متفقہ اجلاس نہیں ہو پا رہا،سیاسی قیادت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو رہی، جب تک قومی سطح پر متفقہ فیصلہ نہیں ہو گا ہر آپریشن متنازعہ کہلائے گا اور اُس کے نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔ یہ سب ایشوز گہری سنجیدگی کے متقاضی ہیں،مگر بدقسمتی سے اُس کا فقدان نظر آتا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی باتیں بہت شاندار ہیں،لیکن ہوں گے کیسے یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔مثلاً اُن کا یہ کہنا کہ قرضوں سے ترقی نہیں ہوتی،اُن سے جان چھڑانا ہو گی، ایک بنیادی بات ہے مگر یہ بات تو ہم کئی دہائیوں سے کر اور سُن رہے ہیں اس کے لئے کچھ کرنا بھی تو ہو گا، اس کے لئے کون سے اقدامات کئے جائیں،کیسی پالیسیاں بنیں گی، قومی ہم آہنگی کے لئے بہت کچھ بھلانا پڑتا ہے، بڑے دِل کے ساتھ فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔دنیا میں مختلف ممالک نے بحرانوں سے نکلنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا،ناممکن کو ممکن بنایا، ہم اپنے اندر تقسیم کی خرابیوں کو زندہ رکھ کر یہ بھی چاہتے ہیں کہ بحرانوں اور مسائل سے نکل آئیں،ایسے معجزے کہاں ہوتے ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک نے دو طرح سے ترقی کی ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے سیاحت کو فروخ دے کر بے اندازہ زرمبادلہ کمایا ہے۔انہیں کسی صنعت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔دوسری طرز کے ممالک وہ ہیں جنہوں نے صنعتی ترقی کے ذریعے اپنی معیشت کا سکہ عالمی سطح پر منوایا ہے۔ان میں وہ ممالک بھی ہیں جو دنیا کی سپرپاور امریکہ کے لئے بھی اپنی صنعتی ترقی کی وجہ سے دردِ سر بن گئے ہیں اور وہ اُن پر ٹیرف لگا کر اپنی معیشت کو سہارا دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔ہمارے خطے میں کچھ ممالک ایسے ہیں،جنہوں نے صنعت اور سیاحت دونوں میں ترقی کی ہے اور اب مضبوط معیشت کے مالک ہیں۔بھارت جیسا ملک بھی صنعتی شعبے اور آئی ٹی سیکٹر میں ترقی کر کے اپنی معیشت کو مضبوط بنا چکا ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے ہم دونوں شعبوں میں ناکام ہیں،ہماری سیاحت کو دہشت گردی اور بدامنی چاٹ گئی ہے،دنیا کے خوبصورت ترین فطرتی مقامات کے باوجود ہم نے اپنے شمالی علاقوں کو محفوظ نہیں بنا سکے۔دنیا کے بڑے ممالک پاکستان میں سیاحت کے لئے جانے کے خواہشمند اپنے باشندوں کو سفر سے گریز کی ایڈوائزری جاری کرتے ہیں جہاں تک صنعتی شعبے کا تعلق ہے تو ہماری وہ صنعتیں بھی جو دنیا میں اپنی مصنوعات کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہیں بھاری ٹیکسوں اور گیس و بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں،کیونکہ عالمی منڈی میں بہرحال قیمتوں کا فرق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم تسلیم کرتے ہیں کہ صنعتکاروں کو مضبوط بنانا ضروری ہے،مگر اس کے لئے عملی اقدامات کب ہوں گے یہ اہم سوال ہے۔ آئی ایم ایف کسی شعبے کو سبسڈی یا ریلیف دینے کا مخالف ہے ایسے میں بندھے ہاتھوں کے ساتھ سوائے دُعا مانگنے کے اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭