جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی۔۔۔ قسط نمبر 19
’’آج پاکستان کی سالمیت کو عاقبت نااندیش حکمرانوں سے خطرہ ہے۔ بلکہ جس مقصد کے لئے یہ ملک حصل کیا گیا تھا اس مقصد کو ختم کرنے کے لئے اندرونی اور بیرونی دشمن اس کے درپے ہیں۔ یعنی اسلام دشمن اپنے وظیفہ خور چیف ایگزیکٹو کے ساتھ مل کر اس ملک کے اندر اسلام کو ختم کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ یہ ملک اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں پر رہنے والے مسلمانوں کو مذہبی آزادی دی جائے گی، وہ آزادی سے اپنی مسجدوں میں جاسکیں گے، آزادی سے اسلام کی تبلیغ اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے، اپنے اچھے اخلاق اور کردار سے دوسری قوموں کو متاثر کرکے اسلام کی طرف راغب کریں گے اور اس ملک میں رہتے ہوئے اسلام کے بتائے ہوئے انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے۔ گویا جیواور جینے دو کی کی پالیسی کو اس خطے میں عملی جامہ پہنائیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو ارکان اسلام کی پابندی کرتے ہوئے ہر برائی کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کرتے ہوئے میدان عمل میں اتریں گے۔
یہی پیغام لے کر سرزمین عرب سے محمد بن قاسمؒ اس خطے میں داخل ہوئے اور اس خطے کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ مسلمان اپنی انتھک کوششوں سے اس خطے میں اسلام کو ہمیشہ پھلتا پھولتا دیکھتے رہے۔ مگر جب اور جہاں کہیں مسلمانوں کو اپنے ہی غداروں اور منافقوں نے کمزور کیا تو اس کے بعد پھر ایک نئے ولولے اور ہمت کی ضرورت پڑی۔ اگر 1857ء کی جنگ آزادی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس وقت سازش کے نتیجہ میں بننے والی فرنگی حکومت جو اس خطے سے اسلام ختم کرنے آئی تھی، اس کے خلاف اعلان جہاد تھا۔ گویا اس ملک کی تخلیق کے لئے 1857ء سے قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اس خطے میں اسلام کو بچانے کے لئے یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ فرنگی کی اذیت ناک صعوبتوں یعنی کالا پانی جیسی سزائیں برصغیر کے مسلمانوں کے پائے استقلال میں لغزش نہ لاسکیں اور وہ ہر قسم کے ظلم و جبر کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے رہے اور آخر کار انہوں نے اپنے لئے ایک آزاد ملک حاصل کرلیا۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی۔۔۔ قسط نمبر 18پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پرویز مشرف! تمہارے یہ قلعے، تمہاری یہ جیلیں اور تمہارے چاپلوس ان مجاہدوں کو یہ سزائیں دے کر، کیا ان کو حق کے راستے سے ہٹالکیں گے؟ ہرگز نہیں۔ آج 14 کروڑ عوام سروں پر کفن باندھ کر حکومت وقت سے 70 ہزار شہدائے کشمیر کے خون کا وقت کے فرعون سے حساب لینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پرویز مشرف! تم نے اپنے اقتدار کو عارضی طول دینے کے لئے 12 اکتوبر کے پہلے سے طے شدہ ایجنڈا پر کام کرتے ہوئے ان 70 ہزار شہداء کے خون کا سودا کیا جو ہندو کی غلامی کی زنجیریں توڑ چکے تھے اور اس خطے میں اسلام کا علم بند کرچکے تھے بلکہ میں یوں کہوں گی کہ یہ قافلہ حق منزل پر پہنچنے کے بعد لوٹا گیا۔ جس مقدس خون کے نذرانے نے جہاد کشمیر کو زندہ رکھا ہوا تھا اس کا تم نے اپنے آقاؤں سے سودا کرلیا بلکہ تم نے خدا کے عذاب کو دعوت دے دی۔ نہ صرف تم نے مسلمانوں سے غداری کی بلکہ اپنے ملک سے غداری کی۔ میں تو کہوں گی کہ تم نے اپنے پیشہ سے غداری کی۔ میں تو 12 اکتوبر کے بعد ہر فورم پر یہ بات کررہی ہوں کہ یہ شبخون پر بننے والی حکومت پاکستان سے اسلام اور جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے لئے ہمارے اوپر مسلط کی گئی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حکومت پہلے مارچ 2000ء میں نافذ ہونے والے اسلامی قانون کی راہ میں رکاوٹ بنی اور اپنے ایجنڈے کا آئٹم نمبر ایک پورا کیا۔ جب جہاد کشمیر زوروں پر تھا تو چیف ایگزیکٹو نے ایک سازش کے تحت کارگل میں جنگ شروع کرواکے اس وقت کشمیر کی جنگ کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ میں پوچھتی ہوں کہ کارگل کے ذریعہ کشمیر لینے والو! آج جیتی ہوئی جنگ دشمن کی جھولی میں تم کس انعام کے عوض ڈال رہے ہو؟ جہاد کشمیر سے غداری کرکے 70ہزار ماؤں کے بیٹوں، بہنوں کے بھائیوں، عورتوں کے سہاگوں اور اسلام کے سپوتوں کا راہ حق میں بہایا ہوا خون تمہیں اتنی آسانی سے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودگی کے لئے رائیگاں نہیں کرنے دیں گے۔ آج کشمیر کے مسلمان پابند سلاسل وزیراعظم، مجاہد اسلام محمد نواز شریف کو کتنی بے بسی سے یاد کررہے ہیں کہ نواز شریف آج تم جس جرم کی سزا پارہے ہو وہ یہ ہے کہ ہماری آزادی کا نعرہ تمہارے ایجنڈے میں شامل ہے۔
کشمیری بھائی یہ جانتے ہیں کہ نواز شریف حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، ہر سال اس مہینے نیلا بھٹ کے مقام پر کھڑے ہوکر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھائیوں کو یہ پیغام دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے والو! تم اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا، کیونکہ پورا عالم اسلام تمہارے اس جہاد میں برابر کا شریک ہے۔
مگر اس دور کے ننگ دین، ننگ ملت، اس سازشی ٹولے نے جو غداری طے شدہ ایجنڈا کے مطابق کشمیر سے کی ہے، اس پر وقت کے غدار میر جعفر اور صادق بھی انگشت بدندان ہیں کہ ہمارے خون کا اثراب بھی باقی ہے۔ جب بھی اس ملک میں آمریت آئی تو اس ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ کبھی ملک دولخت ہوا، کبھی اس کے کسی حصے پر دشمن نے قبضہ کرلیا۔ اس دفعہ حیرت یہ تھی کہ ہمارے پاس گنوانے کو کچھ بھی تو نہیں تھا مگر وقت کے آمر نے یہ ثابت کردیا کہ وہ نہ صرف سالمیت پاکستان کے لئے خطرہ ہے بلکہ شہ رگ پاکستان کشمیر پر دشمن کو مضبوط ہاتھ ڈالنے کی بھی دعوت دے چکا ہے۔
اس سکیورٹی رسک پرویز مشرف نے شہدائے تحریک پاکستان، شہدائے کشمیر، شہدائے جنگ 1948ء، شہدائے جنگ 1965ء، شہدائے جنگ 1971 اور اس ملک پر مر مٹنے والے سپوتوں کے خون کی ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ ارزاں قیمت پر جو سودے بازی کی ہے، یہ غداری نہیں تو اور کیا ہے؟ میں وقت سے پہلے نہ صرف 14 کروڑ عوام بلکہ عالم اسلام کو یہ باور کرارہی ہوں۔ میں قوم کو یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ موجودہ حکمران ایک منصوبہ اور حکمت عملی کے تحت ایٹمی پروگرام کو سردخانہ میں ڈالنے والے ہیں بلکہ ڈال چکے ہیں اور یہ بھی مصدقہ اطلاع ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ نبی پاک ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ہم میں سے جس نے تیر اندازی سیکھ کر اس کو بھلادیا گویا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ حکومت و تیر اندازی کیا، سرے سے جہاد کی ہی منکر نکلی ہے۔ اس کے بارے میں علمائے کرام کا کیا نقطہ نظر ہوسکتا ہے، یہ مفتیان دین جانیں اور ان کا کام۔
اب اس غیر نمائندہ حکومت سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں وہ مجاہدین اسلام کی لسٹیں اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھارت کو تحفتاً پیش نہ کردے اور یہ بات جہادی تنظیموں کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور انہیں اس پر فوری توجہ دینی ہوگی اور اپنی صف بندی مضبوط کرنی ہوگی کیونکہ کچھ عرصہ پہلے اس حکومت نے جہادی تنظیموں کو بنیاد پرست کہا پھر دشمن کو یہ موقع فراہم کیا۔ وہ اب ہر فورم پر ہمیں دہشتگرد قرار دلوانے میں بڑی گہری دلچسپی لے رہا ہے۔
جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اس پر حکومت اور ترجمان حکومت کی پراسرار خاموشی میرے اس خدشے کی تائید کررہی ہے۔ منکرین جہاد حکومت کے سائے میں بیٹھ کر مسلمانوں کے دلوں سے اپنے عقیدہ کے مطابق جذبہ جہاد ختم کرنے کی ناپاک کوشش میں مصروف ہیں۔ نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کے اندر شہدائے کشمیر کی روحیں آج پرویز مشرف سے یہ سوال کررہی ہیں کہ تمہیں ہمارے خون کا سودا کرنے کا حق کس نے دیا؟ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ نے وادی کشمیر میں دن رات اسلام کی دعوت کو بذریعہ تبلیغ عام کیا اور اس خطے کو اسلام کی روشنی سے اس تعلیمات کے مطابق منور کیا جس کے اثرات آج بھی کشمیریوں کے دلوں اور دماغوں میں موجود ہیں۔ کیا ان کی کوششیں اس لئے تھیں کہ کوئی طالع آزما اس خطے کو دشمن کی جھولی میں ڈال دے اور ہمیشہ کے لئے اس خطے میں اسلام کو سوچی سمجھی طے شدہ سازش کے نتیجہ میں کمزور کردے۔ کیا برصغیر کے جید علمائے کرام نے قید و بند کی صعوبتیں اس لئے برداشت کی تھیں کہ ان کی تمام قربانیوں اور محنت کو کوئی فرد واحد اس طرح رائیگاں کردے۔ آج دو قومی نظریہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے، دینی مدارس کو پابند کرنے کے اشارے دئیے جارہے ہیں، جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے لئے این جی اوز ایک خاص فرقے کی سرپرستی میں جہادی قوتوں کو کمزور کررہی ہین۔ قادیانی کلیدی اسامیوں پر قابض ہوگئے ہیں، کیا یہ اسلامی انقلاب ہے؟
حکمرانو! سن لو اب ہم 1971ء والا ڈرامہ نہیں دہرانے دیں گے، پہلے 90 ہزار قیدی بنو اکر ملک کو دولخت کیا اور اب 70 ہزار شہداء کے خون کی قربانی کو رائیگاں بنا کر جہاد کشمیر کا سودا کیا۔ اب کشمیر پر ریلیاں نکالنے، جلسے جلوس کرنے اور ان کی حمایت میں ہڑتالیں کرنے والوں کے لب کیوں سلے ہوئے ہیں؟ جب ملک دولخت ہوا تب بھی ملک پر آمریت مسلط تھی اور اب بھی جب کشمیر کا سودا ہوا تو ملک آمریت سے دوچار ہے اور اس کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ سیاستدان کرپٹ ہیں۔ خود ساختہ حکمران یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کے مایہ ناز قانون دان، علماء و مشائخ بلکہ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سچے محب وطن اس ملک کے سیاسی سسٹم کا حصہ ہیں اور رہے ہیں اور انہی لوگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں آج یہ ملک دنیا کے نقشہ پر باوقار طریقہ سے ابھرا ہے۔ یہ سیاسی لوگوں کی سوچ ہی تو تھی کہ آج پاکستان عالم اسلام میں پہلی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ آمر تو ہمیشہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی سوچ میں رہتے ہیں اور سیاستدان ہمیشہ قوم کی خدمت کا سوچتے رہتے ہیں کیونکہ یہ قوم میں سے ہوتے ہیں او رانہوں نے اللہ اور اپنی قوم کے سامنے جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ جن سیاستدانوں کو کرپٹ کہا جارہا ہے انہوں نے ہی ملک کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ اس کو مضبوط کرنا اور قائم بھی رکھنا ہے اور یہی وہ سیاستدان تھے جنہوں نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا اور آج میں نوابزادہ نصراللہ خان کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود تمام مکاتب فکر اور تمام قابل سیاسی طاقتوں کو اکٹھا کیا جس کا اوّل اور آخر مقصد ملک کو بچانا ، ملک کو آمریت سے نکالنا اور ملک میں صحیح جمہوری اسلامی نظام کو نافذ کرنا ہے اور میں ان تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو آج پھر اسلام اور ملک کو بچانے کے لئے مل بیٹھی ہیں۔
اس پرویز حکومت نے مارچ 2000ء میں اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر اور جولائی 2000ء میں جہاد کشمیر سے غداری کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ کشمیر میں جہاد ختم کرکے حکومت وقت نے اسلام کی تاریخ میں سب سے بڑی شکست کو اپنے ماتھے پہ سجالیا ہے۔ دشمن جمہوری حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا مگر ایک بزدل آمر نے دشمن ملک کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ یہ حکومت آکر اور کیا کرتی۔ اس کو تولا یا ہی اس لئے گیا تھا کہ کشمیر میں جہاد ختم کرو اور افغانستان کی جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدلو اور یہ کام آہستہ آہستہ خود ساختہ حکومت کررہی ہے۔ مورخ ا گر سقوط ڈھاکہ کے اس سانحہ پر روشنی ڈالے گا تو اس سانحہ کی ذمہ داری کا بوجھ کس کے کندھوں پر ہوگا اور وہ میر جعفر اور صادق کے القاب کس کو عطا کرے گا؟ مجھے یقین ہے کہ اس سانحہ میں ملک کا کوئی بھی محب وطن سیاستدان حصہ دار نہیں بنا اور ہمیشہ کی طرح یہ ذلت آمیز شکست اور غداری بھی آمریت کے حصے میں آئی ہے۔ میں ریٹائرڈ جنرل قبضہ گروپ کو یہ یقین دلاتی ہوں کہ ان کا جہاد کشمیر سے غداری کا خواب، خواب ہی رہے گا اور کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ہم کشمیر کے مسلمان بھائیوں کو اس مشکل گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
پرویز مشرف! تم نے تو طے شدہ بیرونی ایجنڈے پر کام کرکے بیرون ملک بھاگ جانا ہے، ہمارا تو جینا مرنا اسی دھرتی کے ساتھ ہے۔ ہم اس کے ساتھ وفا کریں گے۔ اس کے آئین کے ساتھ وفا کریں گے۔ اس کے جغرافیائی سرحدوں سے وفا کریں گے، اس کی نظریاتی سرحدوں سے وفا کریں گے کیونکہ ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ اس ملک اور اس کی عوام کے لئے ہے۔
اب علماء و مشائخ بلکہ تمام مسلمانوں پر فرض ہوگیا ہے کہ آج ملک کے ساتھ جو سازش ہورہی ہے اسے بے نقاب کریں اور ملک میں نفاذ شریعت کے لئے ایک بار پھر متحد ہ وکر جہدوجہد کریں۔ یاد رکھو نفاذ شریعت ہی ہمارا مقصد اور ہماری منزل ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اسلامی دفعات کو پی سی او کا حصہ بنانے کا اعلان کیا اور عملاً جہاد کشمیر کا سودا کرلیا ہے۔ موجودہ حکومت دشمنوں سے دوستی کی راہ و رسم بڑھارہی ہے لیکن اپنوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہاہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بلا جواز اور بے قصور نہ صرف گرفتار کیا جارہا ہے بلکہ چند مخصوص سپر سیڈڈ فوجی افسروں کی تحویل میں دے کر اپنے بنائے ہوئے محفوظ پورہ لاہور کینٹ ٹارچر سیل میں لے جاکر ایسا انسانیت سوز سلوک کیا رجارہا ہے کہ جس سے احترام آدمیت کی تذلیل ہوتی ہے۔
میں پرویز مشرف سے پوچھتی ہوں کہ کیا یہ مسلم لیگ کے لیڈر اور کارکن وطن کے غدار ہیں؟ کیا انہوں نے ایسا کوئی جرم کیا ہے؟ جس کی اتنی کڑی سزا دی جارہی ہے۔ وہ جان لیں کہ یہ وطن پرست لوگوں کو سچائی کی راہ سے نہیں ہٹاسکیں گے اور اس طرح سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سپر سیڈ ڈ آفیسرز کے ذریعہ نفرت کا بیج بویا جارہا ہے۔ اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سپر سیڈڈ آفیسرز کو پروموشن کا لالچ دے کر ان سے اپنے ہی بھائیوں پر ظلم کروایا جارہا ہے۔ پرویز مشرف! سب نے ہی جانا ہے اور تم بھی چلے جاؤ گے، لیکن فوج اور عوام ایک ہیں اور متحد ہوکر انہوں نے وطن کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہے۔ اس ملک اور پاک فوج کا تمہاری ذات پر بہت بڑا احسان ہے۔ اس احسان کا بدلہ اس طرح ادا نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ محسن کش انسانوں کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی دوست رکھتا ہے۔‘‘
(خطاب: 6اگست، 2000ء)