جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 20
اسلام اور عوام کے دشمنوں کی نقاب کشائی
’’اپنے ملک کے 53 سالہ یوم آزادی کے موقع پر آج میں باب الاسلام میں کھڑی ہوں۔ میں اس سرزمین پر کھڑی ہوں جس کو باب الاسلام کے نام سے تاریخ قیامت تک یاد رکھے گی۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہوچکاہے۔ پوری دنیا کی قومیں آزادی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ مجاہد اپنے خطے کی جنگ آزادی کے لئے کشمیر کے اندر تاریخ ساز جہاد کررہے ہیں مگر جب اپنے ملک کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے پلٹ کر دیکھتی ہوں تو یہ ملک آج بھی ذاتی اغراض اور مقاصد کی گھناؤنی سازشوں کے چنگل میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔ غیر مسلموں کے پیروکار اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی تعمیر و ترقی کا سفر منجمد ہوگیا ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت 1971ء کے المناک سانحہ کی تاریخ کو دہرانے کی ایک او رگھناؤنی سازش تیار کی جارہی ہے۔ مگر میں ریٹائرڈ جنرل کو اس یوم آزادی کے موقع پر 14 کروڑ عوام کی طرف سے یہ باور کروارہی ہوں کہ اب قوم کسی بزدل سازشی کو برداشت نہیں کرے گی۔ یہ سکیورٹی رسک حکومت 14 کروڑ عوام کو اس بات کا جواب دے کر تمہارے سردخانہ میں پڑی ہوئی سانحہ مشرقی پاکستان کی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ دشمن کے ہاتھوں میں کیسے پہنچی؟
فکر تو اس بات کی ہے کہ حکومت میں موجود غیر مسلمانوں کے ایجنٹوں نے اس رپورٹ کے ساتھ اور کیا کچھ دشمن ملک بھارت کو پہنچادیا ہوگا۔ جو حکمران جاگ رہے ہوتے ہیں، ان کی قومی امانتیں چوری ہوکر دشمن ملک نہیں پہنچتی بلکہ خلوص نیت والے حکمرانوں کے پاس دشمن ممالک خود چل کر آتے ہیں۔ میں آج سندھ کی سرزمین پر کھڑی ہوکر ملک کی سلامتی کے لئے نیا عہد کرنے آئی ہوں۔ کیونکہ ملک خطرہ میں ہے اوررہا ملک کا آئین تو وہ پہلے ہی عاقبت نااندیش لوگوں کے ہاتھوں ختم ہوچکا ہے۔ میں یہاں کھڑی ہوکر تاریخ کے اس حصے کو دیکھ رہی ہوں جب اس خطے کو مظلوم ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے ایک ظالم حکمران راجہ داہر کے خلاف داد رسی کی اپیل کی او ران کی پکار پر اسلام کا سپوت محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ لبیک کہتے ہوئے نہ صرف اس خطے میں مظلوم کی حمایت کے لئے آیا بلکہ اس کے آنے سے برصغیر میں اسلامی نظام کی تحریک شروع ہوگئی اور اسلام کی تعلیمات سے یہ خطہ منور ہونا شروع ہوگیا۔ مگر آج پھر اس ملک پر راجہ داہر کے پیروکاروں کا قبضہ ہے اور آج میں اس کے خلاف 14 کروڑ مظلوم بے بس عوام کے ساتھ مل کر آواز بلند کرنے آئی ہوں اور میں 14کروڑ عوام کو بتارہی ہوں کہ یہ وقت ہے اپنا دین بچانے، اپنا ملک بچانے، جہاد کشمیر بچانے اور اپنا ایٹمی پروگرام بچانے کا۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 19پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عالم اسلام کا قلعہ پاکستان آج مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے ہاتھوں چلا گیا ہے آؤ ایک بار پھر تحریک پاکستان والا جذبہ بیدار کرکے اُٹھیں اور غیر مسلم قوتوں کی مسلط کی ہوئی آمریت کو ٹھوکروں سے ختم کردیں۔ گزشتہ روز ایک محب وطن کالم نویس نے اپنے کالم میں قوم سے سوال کیا تھا کہ قوم سوچے، اس ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کون سے عناصر ہیں؟ آج کے اخبارات کی شہ سرخیاں اس کے سوال کا مکمل جواب دے رہی ہیں۔ اب میں محب وطن کالم نگاروں اور صحافت کے علمبرداروں سے اس ملک کو بچانے کے لئے درخواست کررہی ہوں کہ وہ پاکستانی ہونے کے ناطے اپنا قلمی جہاد کریں۔ وقت کے غداروں کے چہروں سے نقاب اٹھائیں۔ اب اصل احتساب کا وقت قریب پہنچا ہے۔
سیاستدانوں کو تو عوام ان کے اچھے اور برے کی جزا اور سزا ہر آنے والے انتخاب میں سنا دیتی ہے مگر عوام سقوط ڈھاکہ اور کارگل جیسی غلطیوں کا خون کن کے ہاتھوں پر تلاش کریں۔ کیا ہر دور میں جسٹس حمود الرحمان جیسے جرأت مند محب وطن افراد کی آواز کو بندوق کے زور پر دبا دیا جائے گا؟ اس سکیورٹی رسک حکومت نے نہ صرف دشمن ملک بھارت کے آگے مکمل طور پر گھٹنے ٹیک دئیے ہیں بلکہ اسلام کی دشمن طاقتوں سے بھی مرعوب ہوگئی ہے، ملک بین الاقوامی طور پر تنہا ہوگیا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں خودکشیاں کررہے ہیں اور ایسے حالات میں اللہ کے دین کا پرچار کرنے والے مدارس کو غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ڈکٹیشن دی جارہی ہے اور انہیں پابندیاں لگانے کے اشارے ہورہے ہیں مگر ہم ایسا کبھی ہونے نہیں دیں گے۔
تاجر بھائیوں کو اپنے ملک میں ظلم و تشدد کا بری طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی تاجروں اور کسانوں پر ناقابل برداشت ٹیکس عائد کرکے ان کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کمزور کیا جارہا ہے۔ یہ ٹیکسوں کی وصولی کس کی جھولی میں ڈالی جارہی ہے؟ حکومت ہر روز عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے لئے نت نئے آرڈیننس جاری کررہی ہے مگر 14کروڑ عوام حکومت کے تمام آرڈیننس اور نیب کے کالے قانون کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ نیب کا قانون دوسرے لفظوں میں حکومتوں کا اغوا برائے تاوان ہے۔ خود ساختہ چیف ایگزیکٹو نے اپنے 5 کروڑ روپے کے اثاثے تو ظاہر کردئیے ہیں مگر 5 کروڑ کہاں سے آیا؟ اس کا نہیں بتایا۔ قوم ان سے ثبوت مانگ رہی ہے۔ کیا ملک میں لوٹ کھسوٹ ایمنسٹی سکیم کے تحت یہ اثاثہ وائٹ کرلئے گئے ہیں یا نہیں۔
ریٹائرڈ جرنیل! وقت آنے پر تم سے پوچھا جائے گا اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ وقت بہت قریب آگیا ہے۔ اپنے وزیر خزانہ سے اس کے متعلق مشورہ کرلو کیونکہ وہ ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ کرکے بہت جلد ملک چھوڑنے والا ہے۔ بجٹ سے پہلے کا لکھا ہوا استعفیٰ اب بھی ان کی جیب میں موجود ہے۔ ماہانہ 20 ہزار روپے تنخواہ لینے والے جنرل کا بیٹا دنیا کی مہنگی ترین یونیورسٹی میں کیسے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ دنیا بھر کی قومیں اپنا یوم آزادی تجدید عہد کے طو رپر مناتی ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی راہوں کا تعین کیا جاتا ہے، آئندہ آنے والی نسل کے لئے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے اور ماضی کے ایسے ہیروز کو تاریخ کا حصہ بنایا جاتا ہے جن کا کردار اور قربانیاں مستقبل کے لئے مشعل راہ ہوں۔
مگر جب ہم اپنے ما ضی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے 53 سالہ زندگی کا نصف سے زیادہ وقت براہ راست آمریت کے شکنجہ میں غیر مسلم سازش کے تحت جکڑا ہوا ملتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ آج پھر ملک غیرمسلموں کی گرفت میں ہے۔ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر اس حکومت نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی سازش کی ہے۔ یہ ملک پہلے 1971ء میں انہی طالع آزماؤں کی غیر دانش مندانہ سوچ کے نتیجہ میں نہ صرف دولخت ہوا بلکہ اس کی عسکری طاقت کو بری طرح منتشر کیا گیا۔ آج کی طرح ہمیشہ اس ملک کے نازک کندھوں پر غیر مسلموں نے آمریت کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کروائی جب کسی محب وطن نے عالم اسلام کے قلعہ پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تو ملک کے اندر یہود، ہنود اور نصاریٰ کے ایجنٹ متحرک ہوگئے اور اپنے وظیفہ خوار اور وفادار آمروں کے ذریعہ نہ صرف ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اس کے آئین کے تقدس کو پامال کیا اور اس ملک کی باوقار عدلیہ کی مختلف حیلوں، بہانوں، آرڈیننس اور پی سی او سے آزادی کو سلب کیا۔ آزادی صحافت کو ختم کرنے کی ریت بھی انہی ڈکٹیٹرز کے دور حکومت میں پڑی۔ آج بھی جس کا سلسلہ جاری ہے۔ آج پابند سلاسل نواز شریف کو سزا سر بلندی اسلام اور ایک مضبوط ایٹمی پاکستان کی منصوبہ بندی کی دی جارہی ہے۔
نواز شریف نے مارچ2000ء میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کرنا تھا اور اس سلسلہ میں تمام تر ضروری اقدام کئے جاچکے تھے۔ علماء اور مشائخ سے مشاورت کی جاچکی تھی اور جون 2000ء میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی نظام سے نجات دلانی تھی، افسوس کہ پرویز حکومت نے ایسا ہونے نہ دیا۔ مگر میں یقین رکھتی ہوں جس طرح عوام نے فرنگی حکومت سے نجات حاصل کرکے اپنے سیاسی لیڈر شپ پر بھروسہ کیا، اب وہ اس عظیم الشان ماضی والے بامقصد اور تعمیری قومی جذبے کے ساتھ ملک اور قوم کے دامن پر آمریت کے جو داغ ڈالے گئے ہیں، انہیں بھی دھو ڈالیں گے۔ آؤ مل کر اس موقع پر تجدید عہد کریں کہ
1۔ ہم 14 کروڑ عوام اسلام کے خلاف ساز کرنے والی پرویزی آمریت کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے اور ملک کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنائیں گے۔
2۔ ہم شہدائے تحریک آزادی کے خون اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے ملک پاکستان اور اس کے آئین کے ساتھ وفا کریں گے۔
3۔ شہ رگ پاکستان کشمیر پر سودے بازی نہیں ہونے دیں گے۔
4۔ ایٹمی پروگرام کو سردخانہ میں ڈالنے سے بچائیں گے۔
5۔ اپنے اسلامی ورثوں یعنی دینی مدارس کی حفاظت کریں گے۔
6۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے حکومتی مشن کے خلاف لڑیں گے۔
7۔ ملک کو سود کے بوجھ سے نجات دلوا کر حقیقی اسلامی نظام اور معیشت کی راہ ہموار کریں گے جیسا کہ ہماری حکومت نے جون 2000ء میں اس کی تکمیل کا ایجنڈا تیار کررکھا تھا جو 12 اکتوبر کی سازش کی نذر ہوگیا۔
8۔ مسلمانو! یاد رکھو کہ ہماری بقا اور ہماری منزل نفاذ شریعت میں ہے اور نفاذ شریعت کے لئے ہم پرویز حکومت کے خلاف جہاد کریں گے اور نظام مصطفی ﷺ کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
کل 14 اگست کو میں مزار قائد پر فاتحہ کے بعد قوم کے ساتھ مل کر یہ عہد کروں گی کہ ہم اس ملک کی اسلامی، دینی، اخلاقی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ آمروں اور طالع آزماؤں کا راستہ روکیں گے جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور میں مزار قائد پر کل حاضری کے بعد اس مصمم ارادے کو لے کر پورے پاکستان کا دورہ کروں گی جس طرح عظیم ماں، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے آمریت کے خلاف مثبت قدم اٹھایا تھا۔ میں اس مشن کو جاری رکھنے کا عہد کروں گی۔
آمرو! تاریخ گواہ ہے کہ تم نے بانی پاکستان قائداعظم کے خاندان کو اپنے انتقام کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔ کیا ہوا اگر نواز شریف کا خاندان اسلام کی سر بلندی، پاکستان اور قوم کی ترقی کے لئے وقت کے آمر کے سامنے کلمہ حق کہہ رہا ہے اور ان کے ظلم اور زیادتی کو خندہ پیشانی سے برداشت کررہا ہے۔ آخر میں مَیں حکومتی مشینری سے پوچھتی ہوں کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ دشمن کے ہاتھ کیسے لگی؟ کیا اس پر انکوائری کا مطالبہ کرنے والے مجرم ٹھہرائے جائیں گے؟ میں آج اس موقع پر اپنی قوم کو یہ نوید دیتی ہوں کہ آمریت کے سائے ڈھل چک ے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کا سورج طلوع ہورہا ہے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔‘‘
(خطاب: 14 اگست2000ء)(جاری ہے)