دشت ویراں میں اک تلور کی گواہی

دشت ویراں میں اک تلور کی گواہی
دشت ویراں میں اک تلور کی گواہی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے گولی لگی ہوئی ہے۔ میں جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہوں۔ خون بہہ جانے کی وجہ سے جسم میں نقاہت ضرور ہے لیکن میں پاکستانی قوم کی طرح ابھی لاغر نہیں ہوا ہوں کہ کچھ سوچ بھی نہ سکوں۔ سامنے کھڑی موت لمحہ لمحہ قریب ضرور ہو رہی ہے لیکن جس ملک کا دانہ دنکا میں نے کھایا ہے مجھ سے تقاضا کر رہا ہے کہ اس کا حق ادا کروں اور اس ملک کی جمہوریت کی بقا پہ قربان ہو جاؤں۔ میری موت شاید میرے خاندان کے لیے ایک المیہ نہ ہو کیونکہ میرے وطن میں جب برف باری شروع ہوئی جان لیوا حالات ہی تو تھے۔ برف میں نہ صرف ہر چیز سفید تھی بلکہ خون بھی سفید ہو چکا تھا۔ میرے بہن بھائی اور باپ ایک ایسے ہی سفر میں ملک عدم سدھار گئے تھے۔ صرف ماں بچی تھی جس نے مجھے پالا تھا اور میرا نام جگنو رکھا تھا کیونکہ ماں کا خیال تھا کہ میں کسی دن مخلوق خدا کے لئے روشنی بنوں گا اور راہ حق میں ہی جان دوں گا۔شاید وہ وقت آج آ گیا ہے۔ مجھے جگنو بننا ہے اس لیے مجھے موت کا کوئی خوف نہیں۔ 

اس بار کی برف نے زندگی اجیرن کردی تھی۔ ماں بوڑھی ہو گئی تھی سو میرا منت واسطہ کرکے مجھے قبیلے کے جوانوں کے ساتھ پاکستان بھیجا تھا کہ وہاں میرے شکار پہ پابندی ہے ۔سو بھکر میرے لیے محفوظ ہے۔ اگر ماں زندہ رہی تو برف ختم ہوتے ہی میں اس سے آن ملوں گا۔ مذہب کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن مجھے دیکھ کے لوگ تلور ضرور کہتے ہیں۔ حالانکہ میں جگنو ہوں۔
ہم کچھ دن پہلے یہاں پہنچے ہیں۔ یہاں کا موسم ابھی گرم ہے۔ جسم میں جمی برف پگھل گئی ہے۔اس حرارت نے ایک نئی زندگی سے روشناس کرایا ہے اور ہم دن بھر خوب سیر ہو کے کھاتے ہیں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے رات ہونے پر خدا کا شکر کرتے ہوئے انہی فصلوں میں سو جاتے ہیں۔ اس زمیں کی سوندھی سوندھی خوشبو اپنے اندر بسی محبت و اپنائیت سے دیوانہ کیے جا رہی ہے 150 بس زندگی چین ہی چین لکھ رہی ہے۔
یہ صبح مختلف تھی، طلوع آفتاب پہ ایک عجب منظر تھا۔ ہر طرف گاڑیوں کا دھواں اور ٹائروں سے اٹھتی دھول نے صاف فضا کو گرد و غبار سے بھر دیا تھا۔ دندناتی جیپیں اور ٹرک اپنی پسند کی جگہ کی تلاش میں بے رحمی سے فصلیں روند رہے تھے۔ اتنی فصلوں کا ضیاع ہمیں اس قبیل کے ظالم ، گھمنڈی اور دولت کے نشے میں چور ہونے کا احساس دلا رہا تھا ۔غریب انسانی بستیوں سے دور جہاں عام غلیظ انسان مخل نہ ہو سکیں ایک جگہ تلاش کر لی گئی تھی۔ اور خیموں کی بسائی بستی غربا کی بستی سے بڑی اور امارت و رعونت کا ایک اعلی ٰامتزاج تھی ۔
فضلو بابا جو ہمارے راہنما اور سب سے زیادہ تجربہ کار تھے ۔انہوں نے ایک حفاظتی ٹولی آنے والوں کے مقاصد معلوم کرنے کے لئے بھیج دی تھی۔ جو اب رپورٹ دے رہی تھی کہ آنے والے ملک پاکستان کے بادشاہ کے مہمان قطری شہزادے ہیں ان کو کیے احسانوں کے صلہ اوردوستی کی مضبوطی کے لئے ہمارے شکار کی اجازت دی گئی تھی ۔ جان خطرے میں دیکھ کر ہر کوئی کانپ
رہا تھا کہ فضلو بابا بولے اس سر زمین نے برسوں ہم آنے والوں کی میزبانی کی ہے ۔ ہم جان بوجھ کے جان نہیں دیں گے ۔ان کو تھکا تھکا کے شکار کرنے کا مزہ دو اور اگر تم شکار ہو جاؤ تو اس دھرتی میں حکومت کی بقا کی جنگ کا شہید جانو ۔ دھرتی کے لئے شہادت کی موت نے سب میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔
آج پہلا دن ہے۔ آج ہمارا نقصان بہت زیادہ ہے۔ شہید ہونے والوں کو شہزادے ساتھ لے گئے ہیں۔ نماز عشاء کے بعد فوجی وردی اتار کے میرے ساتھی آگ کے انگاروں پہ رکھ دیے گئے ہیں۔ سرود کی محفل گرم ہے۔ یہ رعنائیوں بھرامعرکہ ساری رات جاری رہا ہے۔ رات کے آخری پہر گشتی پارٹی کی روداد ہمیں خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ اپنی قربانی پہ فضلو بابا پر غصہ آرہا ہے۔ اس شکاری پارٹی کے ہاتھوں اس دھرتی کی لوٹ مار کی باتیں ہو رہی ہیں۔ گیس کے ٹھیکے میں ملکی مصاحبوں سے مل کر کمائے گئے پیسہ نے ان کی دولت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے۔ سڑکوں کے سودے ملکی مصاحب خوب باہمی منافع سے منظور فرما رہے ہیں ۔ خط بھی شاید کسی لوٹ مار کے چھپانے کو ہی دیا گیا ہے ،گو ہمیں حکمرانوں سے بے پناہ پیار ہے لیکن الزام تو لگ رہا ہے اور شفافیت بھی مشکوک ہے۔ یہ سب سنتے ہوئے فضلو بابا کی بھنویں تن گئی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں الزام لگانا تو حضرتِ آدم کا ایک وطیرہ ہے۔ اس دشتِ ویراں میں تمہاری بات کون سنے گا اور پھر تلور کی گواہی کہاں قابلِ قبول ہے 150 اس لیے چپ ہو جاؤ لیکن اب ہر طرف ایک سوال جنم لے چکا ہے کہ کیا ہم واقعی شہیدہیں ۔
نیا دن شروع ہو گیا ہے۔ آج میدان کارزار میں شہادت کا وہ جذبہ موجزن نہیں ہے۔ آج شکاری جلدی تھک گئے ہیں کیونکہ آج ہم بہادری سے مقابلہ نہیں کر رہے ہیں۔ دور دور تک پھیلی فصلوں کی تباہی خیموں۔ خیمہ والوں اور جیپوں کی بے رحمی دھرتی کے سینے پہ لکھی جا رہی ہے۔
فصلوں کے مالک آگئے ہیں اور قطری شہزادے کے خیمہ کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن یہ کیا ملکی سپاہ کالی اور خاکی وردی میں کسانوں کو ان کی تباہ حال فصلوں کی طرف نہیں جانے دے رہی۔فصلوں کے مالک احتجاج کر رہے ہیں میں جو ماجرہ دیکھنے آگے بڑھا ہوں تو ایک طالع آزما کی گولی کا شکار ہو کے اب جھاڑی میں پڑا ہوں۔
جھگڑا بڑھ گیا ہے۔ لاٹھیاں برس رہی ہیں۔ انسانی خون کی بو بھی فضا میں شامل ہے اور ہمیں دیہاتی حق پہ نظر آرہے ہیں۔ میں خود اپنے آپ میں قطری شکاریوں کے خلاف نفرت ابھرتی محسوس کر رہا ہوں۔ جب دھینگا مشتی عروج پہ ہے تو دیہاتیوں کو پسپا کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیل پھینکے جا رہے ہیں۔
دیہاتیوں سے بات چیت کرنے علاقہ کے بڑے بڑے افسر پہنچ رہے ہیں۔ زخم خوردہ دیہاتیوں کے سردار نے ہاتھ باندھ کر ارباب اعلی کی بات مان لی ہے 150وہ کسان بک رہاہے۔ فصلوں کی محبت جسے اس نے اپنے خون سے پروان چڑھایا تھا بک رہی ہے۔وہ اس کی تباہی کی قیمت وصول کر کے جا رہا ہے۔ میں آنکھیں بند کرکے اپنی ماں سے مخاطب ہوں کہ ماں صرف تیرا جگنو نہیں بکا گو کہ زمین کا مالک چند سکوں کی چمک میں بک گیا ہے۔ تیرے جگنو نے صرف ظالموں سے جنگ کی ہے۔ موت میں ڈوبتا میں سوچ رہا ہوں کہ میں ماں کا حقیقی جگنو ہوں۔ ماں سے مل نہ پاؤں گا یہ یقینی ہے لیکن اے کاش میری روشنی اہل پاکستان کی آنکھیں کھول دے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -