ستارہ روشنی د ے کر ستاروں میں جابسا ۔۔جیو تو اختر حیات کی طرح ۔ ۔ ۔
گلوبل پِنڈ( محمد نواز طاہر)لفظ روح کی آواز کے تابع اور منتظر ہوتے ہیں ۔ روح جب ساتھ نہ دے تو الفاظ ٹوٹے ہوئے ستاروں کی طرح لمحوں کی شبہیہ چھوڑتے بکھر جاتے ہیں ۔ کئی روزحروفِ تہجی جوڑنے کی بھرپور کوشش کے باوجود کوئی لفظ نہ بن سکا،بار بار ایک شبیہہ بنتی رہی ۔مسکراتی ۔۔کچھ بولتی ۔۔اور پھر مسکراتی ۔۔۔اختر حیات کی شبیہہ ۔۔۔دماغ پر نقش درخشاں حیات چہرہ ۔۔۔ جو 5نومبر کو عصر کے ساتھ سپردِ خاک کردیا۔میانی صاحب قبرستان میں ایسے کئی چہرے خاک نشیں ہیں ،شہداء،غازی، مرحوم،قاتل،مقتول،ظالم، مظلوم ۔۔ ۔جانے کتنے ان کے پیاروں کو بھی یاد نہیں اور ان گنت پرانے نصاب کی طرح قصہ پارینہ سے بھی متروک و حذف ہوگئے ۔صرف وہی رہے جوزندہ رہنے والا کردارادا کرگئے ۔اختر حیات ،مقتول، غازی یا شہید ہیں ،مر گئے یا امر ہوگئے ۔یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مرنے والے بھول جاتے ہیں لیکن اختر حیات زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے ۔انہیں ریاستی بے حسی نے قتل کیاوہ لوگوں کی زندگی کو داﺅ پر لگائے ون ویلنگ کرنے والوں کی لاپروائی کا شکار ہوئے جبکہ ون ویلنگ کیخلاف سرکاری ریکارڈ میں قانون اسی طرح موجود ہے جیسے ملک کے آئین میں شہریوں سے مساوی سلوک اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت موجود ہے لیکن عملدرآمد صرف مالداروں اور بااختیاروںتک محدود ہے۔ ون ویلنگ دن رات پولیس کی موجودگی میں ہوتی ہے اوراختر حیات جیسے کئی لوگ اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔اختر حیات غازی اور شہید اسلئے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دیا،کلمہ حق جابر سلطان سے پوچھ کر نہیں بلکہ غلط کو منہ پر برا کہا۔شفقت اور محبت کے کم و بیش 27سالوں میں زمانے کی سردی،گرمی کے باوجود اختر حیات کے چہرے پر خزاں نہیں دیکھی صرف بہار نظر آئی ۔جب بھی ملاقات ہوئی درویش منش نے دانائی ، رہنمائی اور بھلائی کی بات کی۔ان کے برجستہ جملوں سے کئی لوگوں نے ہیڈ لائنز سجا کرانعام پائے اورروزگار کا تحفظ پایا۔ایک ’پھٹے‘ پر بیٹھے چائے پیتے ہوئے ’بوہے باریاں ‘لکھا،ان بوہے باریوں کی ہوا سے حدیقہ کیانی فضاﺅں میں اُڑ گئی ۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) کے دستور اور ضابطہ حیات کے مطابق اختر حیات نے ہمیشہ شہری آزادی اور میڈیا کارکنوں کے حقوق کی بات کی،استحصال پر آواز بلند کی جس بنا پر کہیں نوکری چھوڑ دی تو کہیں سے جواب لے لیا، معاش کی پروانہ کی،طمع اور لالچ ویسے ہی ان سے خائف رہتا۔ملاقاتیں اور باتین بھولتی نہیں لیکن ،آخری پونے دو ملاقاتیں صحافتی زبان میں ’آخری کاپی ‘چلے جانے جیسی ہیں۔ایک ملاقات 23اکتوبر کو ہوئی تواس وقت وہ پی ایف یوجے کی انتخابی سرگرمیوں کا ذکرکرتے ہوئے دل گرفتہ تھے،لاہور پریس کلب کی لائبریری میں ظہیر کاشمیری ( بابا جی) کے پورٹریٹ کے مقابل کھڑے بول رہے تھے۔۔۔طوطاجی!صحافت میں ادب، گرائمر،تلفظ سب کا قتل ہوگیا ہے اور آپ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرہمیں گھورتے ہوئے ملامت کررہے ہیں جبکہ ہماری کوئی سنتانہیں، اب سب پیدائشی استاد ہے،یہ سارا قصور مالکان اورسفارشی افسر بننے والے ماں کے” ۔۔۔“ کا کمال ہے،ایسے ہی نیچے نثارعثمانی ہال میں عثمانی صاحب کی روح بھی یونین کے انحطاط و زوال پر تڑپ رہی ہے ،یونین کے حالات اس قدر دگرگوں کبھی بھی نہیں رہے کہ صرف چوری کھانے والے ہی ہوںاور بات کرنے والا کوئی نظر ہی نہ آئے۔۔۔قطع کلامی کرتے ہوئے جب انہیں بتایا کہ عثمانی صاحب کا سپاہی ہونے کے دعویدار کی حیثیت سے میں نے انتخابی پروسیس اور بے قاعدگیاں چیلنج کررکھی ہیں تو ان کے چہرے کی رُت ہی بدل گئی جیسے جلتے صحرا میں برکھا برسی ہو ۔مختصر تفصیل سننے کے بعد حوصلہ افزائی کیلئے شاباش دی اور ہدایت بھی کی کسی کی باتوں اور رعب میں نہیں آنا۔اگر کوئی ’ہینکی پھینکی ‘کرے تو اس کا ’گھر ‘ پورا کرنا اور مجھے ضرور بتانا۔اس کی’ ایسی کی تیسی ‘ جو تجھے کچھ کہے ،میں تیرے ساتھ ہوں۔پھر بابا جی ( ظہیر کاشمیری ) کی طرف دیکھتے ہوئے بولے کہ آپ نے ٹھیک ہی لکھا تھا ’ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے‘۔آدھی ملاقات کراچی میں پی ایف یوجے کے متنازع الیکشن سے میرے واپس آنے پر 28اکتوبر کو موٹر سائیکل پر چلتے چلتے ہوئی۔بس اتنی بات ہوسکی کہ مجھے الیکشن کی اصل کہانی بتاﺅ کہ پی ایف یوجے کے ساتھ کس کس نے کیا کھلواڑ کیا؟ہمارری اور اگلی صحافتی نسل کا دشمن کون کون ’ماں کا دینہ‘کیا کیا کرتا رہا،ساتھ ہی تمام واقعات تفصیل سے لکھنے اور ای میل کرنے کی ہدائت کی۔اسی دوران چندانچ کا فاصلہ فٹوں مین بڑھ گیااور پھر ہم دونوں ٹریفک کے رش میں ایک دوسرے سے اوجھل ہوگئے۔ انہیں پڑھانے اور مجھے ’بیگاریُ ‘ کی جلدی تھی۔۔۔کئی روز ملاقات نہ ہوسکی ، کوشش کی تو کامیاب نیہ ہوئی ۔دورانِ ڈیوٹی اطلاع ملی کہ اختر حیات پریس کلب سے نکلتے ہی ون ویلنگ کرنے والے کھلنڈرے کی ماٹرسائیکل نے ٹکر مارکر شدید زخمی کردیا ہے اور وہ ہسپتال میں بے ہوش پڑے ہیں،رات ڈھائی بجے ڈیوٹی سے فارغ ہوکر تکلیف میں انہیں بے آرام نہ کرنے کا سوچ کرہسپتال نہ گیا، صبح نوبجے نکل کرساڑھے نوبجے ہسپتال پہنچا تو اسوقت تک قیامت آ اور اختر حیات جاچکے تھے۔(انا للہ ِو انا الیہِ راجعون)۔اب 88ءماڈل کی موٹرسائیکل اور 67ءماڈل کا انسان ایک دوسرے کیلئے بوجھ تھے ، روح تو روح کے جانی کے پیچھے تھی دماغ کام نہیں کررہاتھا،بس ان کے صاحبزادے یاسر کا فون پرملنے والا جواب گونج رہا تھا۔۔۔’ ابورخصت ہوگئے،ایمبولینس گھر(صحافی کالونی ) کے پاس پہنچ چکی ہے۔میںخود کو لحد میں اترتے محسوس کررہاتھا۔۔۔ ملاقات خواب بن کر ہی رہ گئی۔۔۔، جیسے تیسے جب صحافی کالونی پہنچا تو ملاقات ہوگئی مگر بے حس و حرکت اختر حیات سے ۔۔۔کالونی میں صحافی ،ادیب سماجی و سیاسی رہنما ہرکوئی سوگوار اور11روز پہلے ہی یومِ عاشورکا سماں تھا ،کسی صحافی کے سفرِ اخرت کے وقت صحافیوں کی اتنی تعداد پہلے نہیں دیکھی ،اگرچہ رمان احسان اور حامد جاوید (وہ دونوں بھی اختر حیات کی طرح پریس کلب کی گورننگ باڈی کے رکن رہے ہیں ) کے جنازے بھی بہت بڑے تھے،سوگوارایک دوسرے سے تعزیت اور اختر حیات کی باتیں کررہے تھے اور ہر سوگوار چہرے پر اختر حیات کی مسکراہٹ تنبہیہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔ اوئے پگلو!میں مرا کہاں؟اپنے قلب و ذہن اور زبان پر دیکھو سب کیلئے میں تو زندہ ہوں ،مرتے تو وہ ہیں جن کا نام لیوا کوئی نہیں ہوتا ، طمع لالچ اور حرص کے مارے ،مرتے ہیںجو پیسے جمع کرنے کی ہوس میںحیات اور بوہے باریاں تک بیچ ڈالتے ہیں، انہیں ان کی جمع کی ہوئی دولت ہی ماردیتی ہے ، میں نے تو ’بوہے باریاں ‘ کی ایک پائی تک نہیں لی تھی،اوپر والے کے عطا کردہ الفاظ تھے جو اس کی خلق کے سپرد کردیے ۔ یہی میرا پہلا اور آخری سبق ہے ۔۔۔ انسان اور علم دوست اختر حیات سے بقیدِ حیات آخری ملاقات کے وقت بھی وہ سبق پڑھانے جا رہے تھے ۔جب ان کا ساکت جسم کندھے پر اٹھایا تب بھی محسوس ہورہا تھا کہ وہ یہی سبق دہرا رہے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور حق(بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔یعنی سمجھ بوجھ رکھنے ،حق کیلئے ڈٹ جانے والے سچے لوگ ۔۔۔ اور اختر حیات کو حق و سچ کی سمجھ بوجھ تھی۔روشنی اور زندگی خاک کے حوالے کرکے لوٹ رہاتھا تو کینیڈا سے ایشیائی کینیڈیائی صحافیوں کی تنظیم کے صدر محسن عباس کا فون آیا جو کہہ رہے تھے کہ اختر حیات کے حادثے کی خبر ملی ہے ۔میری طرف سے بھی ان کی عیادت کرنا۔ جب بتایا کہ اب اللہ کے حضور دعا کریں تو رنجیدہ ہوگئے اور بولے یعنی لاہور کی تاریخ اور ایک اچھا اردودان دفن کردیا مگر اس کی باتیں اور تحریریں اسے زندہ رکھیں گی۔۔۔ وہ تو چمکتا ستارہ (اختر)تھے ، حیات بھی ویسی تھی ، وہ اپنی چمک یہاں چھوڑ کر ستاروں کی زندگی جابسے ہیں ۔۔۔۔