افغانستان میں برطانوی فوج کے مظالم ، جنگ کی عمر کے تمام مردوں کو قتل کرتی رہی ، تہلکہ خیز دستاویزات میں انکشاف
لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن) برطانیہ کی وزارت دفاع کی جانب سے 2022 میں شروع کی گئی افغانستان انکوائری کے تحت برطانوی افواج کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات جاری ہیں۔ انکوائری کا مرکز افغانستان کے تنازع کے دوران برطانوی سپیشل فورسز کے اقدامات اور ان کی غیر قانونی کارروائیوں کو چھپانے کی کوششیں ہیں۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق گواہیوں اور سینکڑوں دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانوی سپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) نے 2010 سے 2013 کے درمیان افغانستان میں اپنی کارروائیوں کے دوران غیر مسلح افراد کو قتل کیا اور ان واقعات کو چھپانے کی کوشش کی۔ ایک سابق افسر نے ایس اے ایس کو "قتل کے لیے بے لگام اجازت نامہ رکھنے والا ادارہ" قرار دیا۔
انکوائری خاص طور پر سپیشل فورسز کے رات کے وقت کیے جانے والے آپریشنز (جنہیں 'ڈیلیبریٹ ڈیٹینشن آپریشنز' کہا جاتا ہے) پر مرکوز ہے۔ سات برطانوی سپیشل فورسز اہلکاروں کی خفیہ گواہی کے مطابق فوجیوں نے ایسے افغان شہریوں کو ہلاک کیا جو غیر مسلح تھے اور کسی قسم کا خطرہ نہیں تھے۔ ایک اہلکار جسے دستاویزات میں این 1799 کا نام دیا گیا ہے، نے بتایا کہ بعض آپریشنز کے دوران "تمام فائٹنگ ایج ( جنگ لڑنے کی عمر) کے مردوں کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا، چاہے وہ خطرہ نہ بھی ہوں۔ کچھ مواقع پر حراستی مراکز میں قیدیوں کو قتل کیا گیا۔ بعض اوقات تکیہ ان کے سر پر رکھ کر انہیں گولی ماری گئی۔ ان ہلاکتوں میں 16 سال سے کم عمر کے لڑکوں کے شامل ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
دستاویزات اور گواہیوں میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ کچھ افسران ایس اے ایس کی کارروائیوں پر تحفظات رکھتے تھے۔ فروری 2011 کے ایک ای میل میں ایک افسر نے سوال کیا کہ کیا ایس اے ایس جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر رہا تھا جن سے ہلاکتوں کو جواز فراہم کیا جا سکے، جیسے قیدیوں کو ہتھیار لانے کا حکم دینا اور پھر انہیں گولی مار دینا۔