مہاتماگاندھی کی عینک اور بندر۔۔۔ قسط نمبر1

مہاتماگاندھی کی عینک اور بندر۔۔۔ قسط نمبر1
مہاتماگاندھی کی عینک اور بندر۔۔۔ قسط نمبر1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: سلیم خان ۔۔۔۔ گاندھی جی کی عینک
(قسط اول)
ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں وردھا کے مقام پر۱۹۳۶ءمیں گاندھی جی نے اپنا ایک گھر بنایا تھا جو آگے چل کر سیوا گرام نام کے آشرم میں تبدیل ہو گیا۔ جب گاندھی جی حیات تھے تو اس آشرم سے گاو ں والوں کی سیوا کی جاتی تھی اب گاندھی جی کی سیوا بھاونا (خدمتِ خلق کا جذبہ) کی مانند یہ آ شرم بھی پرکھوں کی ایک یادگار بن چکا ہے جہاں ہر سال ۳ لاکھ زائرین گاندھی درشن کے لئے آتے ہیں اور ان کی نوادرات پر حیرت جتاتے ہیں۔ گاندھی آشرم میں ان کے استعمال کی اشیا فی زمانہ نمائش کا سامان بنی ہوئی ہیں قوم کے نزدیک اس کی اہمیت اور ضرورت اس سے زیادہ نہیں ہے۔   سیوا گرام آشرم کے حکام اپنی ڈائمنڈ جوبلی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک موصوف کی عینک کے چوری ہونے کی خبر منظرِ عام پر آئی ہے اور ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔ چوری کی اس واردات کو چھ ماہ تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا ایسا کیوں ہوا ؟اس کی تحقیق و تفتیش کر کے ناظرین کو حقیقت سے واقف کرانے کی ذمہ داری ’تول کے بول‘چینل نے مجھے سونپی اور اس کام کے لئے ہم سب سے پہلے معروف گاندھیائی مفکر اور دانشور شری سنکی لال اگروال کی خدمت میں جا پہنچے۔ 
گاندھی جی کے چشمے کی چوری کو اس قدر طویل عرصہ کیوں چھپایا گیا ؟ یہ سوال جب ہم نے سنکی لال اگروال سے پوچھا تو وہ کہنے لگا 
لگتا ہے آپ گاندھیائی فلسفہ یات کے بارے میں نہیں جانتے ورنہ یہ سوال نہیں کرتے ؟
ہم نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ بات درست ہے کہ ہم نہیں جانتے لیکن گاندھی جی کے اصول و نظریات کو اس دور میں کون جانتا ہے ؟
وہ ناراض ہو کر بولے ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں یہ تو ہماری توہین ہے ۔
ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ہم نے شرمسار ہو کر معذرت طلب کی اور کہا کہ اچھا تو آپ ہی گاندھیائی فلسفہ حیات کی روشنی میں اس تاخیر کی وجہ بتلا دیں ،وہ بولے گاندھی جی کی چوکی پر تین بندر رکھے ہوتے تھے اور آج تک انہیں کسی نے چرانے کی جرات نہیں کی، وہی اس بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ 
اچھا یہ یہ چوکی کیا ہوتی ہے ؟ہم نے حیرت سے پوچھا۔(جاری ہے )

مہاتماگاندھی کی عینک اور بندر۔۔۔ قسط نمبر2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

.

سلیم خان کی یہ تحریر ’کتابین اردو لائبریری‘ کی ویب سائٹ سے لی گئی ہے ، قارئین اس کا مطالعہ وہاں بھی کرسکتے ہیں۔