ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 65

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 65
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 65

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خالص اردو

پرتھ میں ڈاکٹر ثمینہ یاسمین میزبان تھیں ۔ وہ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں پروفیسر تھیں اور انھی کے زیر انتظام ایک کانفرنس میں مجھے اپنا مقالہ پڑ ھنا تھا۔ائیرپورٹ پر ڈاکٹر صاحبہ کے ایک جاننے والے صاحب مجھے لینے آئے اور ان کے گھر پہنچادیا۔اس وقت وہ گھر پر نہیں تھیں بلکہ ان کے نومسلم شوہر ڈاکٹر جیمز گھر پر تھے ۔ انھو ں نے بڑ ی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔

ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ڈاکٹر جیمز ایک زبردست شخصیت کے مالک تھے ۔وہ چالیس برس تک یونیورسٹی میں پڑ ھا کر ریٹائر ہوئے تھے اور اپنا بزنس بھی کرتے تھے ۔ان کے پاس ہر طرح کی معلومات کا خزانہ تھا اور وہ اسے دوسرے تک منتقل کرنے میں بڑ ی دلچسپی رکھتے تھے ۔ اس لیے میری ان سے بہت اچھی ملاقات رہی اور ان دو تین دنوں میں ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔

کچھ دیر میں ڈاکٹر صاحبہ بھی تشریف لے آئیں ۔ ان سے فون اور ای میل پر تو پہلے ہی رابطہ تھا، مگر اب ملاقات کر کے بہت خوشی بھی ہوئی۔وہ اپنی کلاسیں لینے اور کانفرنس کے سلسلے میں کافی مصروف تھیں ۔ بقول ڈاکٹر جیمز کہ آج کل انہوں نے کھانے پکانے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ اگلے دن میں نے ان کے ہاتھ کا بہت مزے کا کھانا کھایا۔

تاہم انھوں نے بتایا کہ اس وقت ڈنر ہمیں باہر کرنا ہے ۔ ان کے ایک دوست فرخ صاحب نے پاکستانی سفیر نائلہ چوہان صاحبہ کی دعوت کی ہے جو کینبرا سے آئی ہوئی ہیں ۔چنانچہ ایک تھائی ریسٹورنٹ میں تھائی کھانا کھانے کے ساتھ فرخ صاحب ان کی اہلیہ، سفیر پاکستان نائلہ چوہان صاحبہ اور ان کے صاحبزادے سے بھی ملاقات ہوئی۔

اس ڈنر میں میرے لیے نائلہ صاحبہ کے صاحبزادے عثمان چوہان سے ملنا بہت باعث مسرت ہوا۔وہ ایک انتہائی قابل اوراعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے جو سات زبانوں میں ماہر تھے ۔ دوران گفتگو وہ اتنی گاڑ ھی اردو بول رہے تھے کہ شاید کسی عام اردوداں کے لیے اس کو سمجھنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ہی وکی پیڈیا اردو کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس پر میں نے ان کو توجہ دلائی کہ اردو زبان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نئے زبانوں کے الفاظ لے کر اپنے آپ کو بہتر بنا رہی ہے ۔ اردو میں کئی زبانوں کے علاوہ زیادہ تر ہندی، فارسی اور عربی کے الفاظ ہیں ۔ اب انگریزی زبان کو بھی یہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے کہ اردواس کے بہت سے الفاظ قبول کر چکی ہے ۔ تحریری طور پر تو ابھی یہ الفاظ اس طرح استعمال نہیں ہوتے ، مگر زبانی اردو میں انگریزی کے الفاظ فیشن کے طور پر نہیں بلکہ اردو زبان کے اجزا کے طور پر بولے جاتے ہیں ۔

وہ اس وقت کینبرا میں اپنے والدین کے ساتھ مقیم تھے اور وہیں سے اکنامکس میں اپنا پی ایچ ڈی کر رہے تھے ۔ایسے ذہین اور قابل لوگ بلاشبہ ہمارا سرمایہ ہیں ، مگر ایسے سارے سرمائے کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر کارملک سے باہر چلا جاتا ہے ۔

تصویر اور بگاڑ

اگلے دن یہاں مقیم کاشف صاحب کے ساتھ شہر دیکھنے کا پروگرام تھا ان سے رابطہ ڈاکٹر ذوالفقار نے کرادیا تھا۔وہ ایک بہت اچھے نوجوان تھے جن کا دینی ذوق بہت اچھا تھا۔ سارے راستے ان سے دینی اور علمی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ساتھ میں پرتھ کی کئی اہم جگہیں انھوں نے دکھادیں ۔

سب سے پہلے ہم کنگز پارک گئے ۔ یہ شہر کے اندر بنا ہوادنیا کا سب سے بڑ ا اوربہت خوبصورت پارک تھا۔ اس کے اندر سے جو سڑ ک گزرتی ہے اس سے جاتے ہوئے کسی جنگل کے اندر سے گزرنے کا گمان ہوتا ہے ۔ اس کا بڑ ا حصہ ایک پہاڑ ی پر واقع ہے ۔ اس پہاڑ ی سے کھڑ ے ہوکر دریائے سوان اور اس سے آگے پھیلے ہوئے پرتھ کے جنوبی حصے کا انتہائی خوبصورت منظر نگا ہوں کوشب وروز کے ہر پہر میں دعوت نظارہ دیتا ہے ۔اس کے علاوہ یہاں سے ڈاؤن ٹاؤن کی بلند و بالا عمارتوں کا نظارہ بھی بہت حسین لگ رہا تھا۔ اس کے علاوہ دور واقع پہاڑ یوں پر بش فائر کا منظردیکھا۔ اس بش فائرکا بہت ذکر یہاں سنا تھا۔ آسٹریلیا میں سب جگہ سفیدے کے جنگلات ہیں جن میں موسم گرما میں اکثر آگ بھڑ کتی رہتی ہے ۔اس وقت یہی بش فائر ہمارے سامنے تھی۔

دریائے سوان وہ بڑ ا سارا دریا ہے جو پرتھ کو جنوبی اور شمالی پرتھ میں تقسیم کرتا ہے اور ساتھ میں مختلف آبی تفریحات کے علاوہ اہل شہرکو ایک بہترین منظر بھی فراہم کرتا ہے ۔کاشف مجھے یہاں لے گئے اور یہاں سے میں نے ایک لائیو وڈیو بھی بنائی۔

آسٹریلیا کے ہر شہر کی طرح یہاں بھی میرا درد وہی رہا جو پہلے تھا۔ ایک یہ کہ یہ اولاد نوح جن تک دین کی دعوت پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے ، ہم اس سے بالکل غافل ہیں ۔ خاص کر وہ مسلمان جو یہاں ہزاروں کی تعداد میں رہ رہے ہیں ۔دوسرے یہ کہ کس طرح ان اقوام نے اپنے شہریوں کو ضروریات سے آگے بڑ ھ کر تفریحات اور سہولیات میں بھی اتنا کچھ دے دیا ہے کہ کس کس چیز کی تفصیل بیان کی جائے ۔

میری مزید تکلیف کا سبب یہ چیز تھی کہ پچھلے پندرہ برسوں میں یہ لوگ آگے سے آگے بڑ ھ گئے ہیں اور ہم جہاں تھے اس سے بھی پیچھے جا چکے ہیں ۔چین ، جنوبی کوریا ، سنگاپور، ملائشیا کو تو چھوڑ دیجیے جو آزادی کے وقت ہم سے بہت پیچھے تھے ، اس وقت حال یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت جیسے ممالک ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں ۔ اس وقت تو ہم سے شاید افغانستان ہی پیچھے ہو۔ اس کی وجہ بڑ ی حد تک وہ پالیسیاں ہیں جو پچھلے تیس برسوں سے افغانستان کو اپنا حصہ بنانے کی کوشش میں ہم نے اختیار کر رکھی ہیں ۔

اس صورتحال سے نکلنے کا بنیادی راستہ ایمان و اخلاق کو قوم کامسئلہ بنانا، تعلیم کو عام کرنا، جذباتی انداز فکر کے بجائے معقولیت کا فروغ اور اعلیٰ انسانی اقدار کے لیے جدوجہد کرنا ہے ۔ ورنہ ہم یہی شعر پڑ ھتے رہیں گے ۔

ایک ہم ہیں لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بناآتی ہے 
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)