سلگتا بلوچستان، جنرل جیلانی تا جنرل فیض حمید
1969ء میں مارشل لا کے ساتھ ہی ون یونٹ کا خاتمہ طے تھا جو یکم جولائی 1970ء کو عمل میں آگیا۔ دراصل مارشل لا لگتے ہی بساط پر اندر خانہ عمل شروع ہو گیاتھا۔ صوبہ بلوچستان بحال ہونے کے نتیجے میں آئی ایس آئی کی صوبائی تنظیم لازم تھی۔ تب تک جنرل یحییٰ کی "غیر نصابی" سرگرمیوں کے سائے سے آئی ایس آئی وغیرہ محفوظ تھے۔ بلوچستان آئی ایس آئی کی چھتری تلے 1969ء میں آیا۔ میجر شکیل غیر معمولی محب وطن، دیانت دار اور ناقابل یقین حد تک پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ بلوچستان میں آئی ایس آئی منظم کرنے کو میجر شکیل کا انتخاب بجائے خود ادارے کے انتہائی پیشہ ور ہونے کی دلیل تھا۔مختصر سی تنظیم اور ڈی ایچ اے اور تجارت سے پاک ہماری مسلح افواج بہترین تربیت یافتہ اور واقعتا پیشہ ور تھیں، تب تک جنرل یحییٰ کی مترنم اور از قسم (جنرل) رانی راجہ سرگرمیوں سے ریاستی ادارے محفوظ تھے۔
میجر شکیل کے جانشین سے یہ سن کر مجھے تعجب ہوا کہ میجر شکیل کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن وہ مستعفی ہو گئے،اس انتہائی باصلاحیت اور پیدائشی سپاہی کا جرم کیا تھا؟ ”پروفیسر صاحب، جنرل یحییٰ کو اپنے جیسا ”ہم پیالہ“ شخص درکار تھ، اس نے اپنے بدنام زمانہ ہم مشرب جنرل اے اے کے نیازی سے بریگیڈیئر غلام جیلانی لے کر اسے ترقی دی۔ تکون مکمل ہوتے ہی جنرل جیلانی کو آئی ایس آئی کا چیف لگا دیا“۔ ریاستی بدبختی کا آغاز یوں تو اکتوبر 1958ء کی فوجی بغاوت سے ہو چکا تھا، لیکن رہی سہی کسر جنرل یحییٰ کے اس ہم ذوق جنرل نے پوری کر دی، آج لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی ایس آئی میں بھٹو مرحوم نے سیاسی سیل قائم کر کے اسے سیاست زدہ کیا تھا۔ فی الاصل ان قبیح کاموں کی ابتدا جنرل یحییٰ کے چہیتے جنرل جیلانی نے کی تھی، وہ دن اور آج کا دن بلوچستان کو تو ایک طرف رکھئے ملک کو بھی قرار حاصل نہیں ہے۔
”عہدہ سنبھالتے ہی گورنر غوث بخش بزنجو قلات کے دورے پر گئے۔ عشائیے پر اعلیٰ حکام اور عمائدین بھی تھے۔ دوست محمد اور عبدالرحمن نامی دو ایم پی اے حضرات نے وہاں آئی ایس آئی کی شکایات شروع کر دیں۔ پروفیسر صاحب! میں دور کونے میں دبکا بیٹھا تھا، شکایات کا حجم بڑھ گیا تو دبنگ گورنر جلال میں آ کر بولے:کہاں ہیں آئی ایس آئی والے؟ میرے سامنے لاؤ، میں پیش ہوا تو گورنر بولے، you are creating rift in my party (آپ لوگ میری جماعت میں دراڑیں ڈال رہے ہو؟) عرض کیا: جناب آپ تو بابائے بلوچستان ہیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ذرا سی دیر بعد گورنر نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا، میں نے ان کی غلط فہمی مکمل دور کر دی۔ لیکن مسئلے کی نوعیت سے انکار ممکن نہیں۔ بلوچستان، مسلح افواج اور آئی ایس آئی والے جن خطوط پر آج چل رہے ہیں، جناب اس دنوں یوں کوئی نہیں سوچتا تھا“۔
بلوچستان میں آئی ایس آئی کے اس بانی افسر کو میرے تند و تیز سوالات سن کر چپ سی لگ گئی۔ ”پروفیسر صاحب، جنرل غلام جیلانی کی ناروا سرگرمیاں دیکھ کر میجر شکیل کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو انہوں نے آرمی چیف جنرل ٹکا خان کو یوں خط لکھا: جناب! میں اپنا سر بلند کرنے کو فوج میں آیا تھا لیکن جنرل جیلانی کی سرگرمیوں اور احکام کے باعث آج مجھے فوج میں رہتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کرنل فاروقی کی سربراہی میں میجر شکیل کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی شروع ہو گئی۔ کرنل فاروقی نے مجھے بلا کر کہا، دیکھو ینگ مین ملک سے باہر جانا چاہو تو بھیج دیں گے، ملٹری اتاشی لگنا چاہو تو لگا دیں گے۔ بس میجر شکیل کے معاملے میں ہماری مدد کرو تاکہ اسے سبق سکھایا جائے۔ پروفیسر صاحب، معلوم نہیں تم مجھے کتنا جانتے ہو۔ کرنل فاروقی کو البتہ مایوسی ہوئی۔ ادھر دوران سماعت میجر شکیل نے جنرل جیلانی کو کورٹ میں لانے کا مطالبہ کر ڈالا اور کہا کہ وہ اپنے الزامات عدالت میں آ کر بیان کریں، میں ان پر جرح کروں گا، پھر فیصلہ سر آنکھوں پر۔ جنرل جیلانی کورٹ میں نہیں آئے تو میجر شکیل کے خلاف کچھ ثابت نہ ہوا۔ لیکن وہ مستعفی ہو گئے"۔
آزادی کے بعد دو مغربی صوبوں میں شورش کوئی بعید از فہم امر نہیں تھا۔ خیبر میں کانگریسی فکر نے وفاق کو بذریعہ افغانستان پریشان کر رکھا تھا۔ بلوچستان میں ہر شوریدہ سر'انقلابی" لازما کامریڈ ہوا کرتا تھا، آج نئی نسل کو ہمارے معکوس رویے کا علم نہیں ہے،جس گوادر اور ریل روڈ تانے بانے کے سہارے آج ہم چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سے روابط کے خواہشمند ہیں، ان دنوں یہ خواہش سوویت یونین کی تھی، لیکن اس کی نوعیت معاہداتی نہیں تھی، وہ بلوچستان پر قبضہ کر کے وہی پرانا نو آبادیاتی راستہ اپنانا چاہتا تھا جیسے وہ متعدد ترکستانی ممالک پر قبضہ کر کے اختیار کرچکا تھا،ادھر اپنے پہاڑوں پر ہتھیار بند عام بلوچ کامریڈ ان تزویراتی باریکیوں سے بے خبر جنگ کر رہے تھے، چھوٹے مقامی سردار بڑوں کی تقلید میں محض باغی تھے، مسئلہ بڑے سرداروں کا تھا جن کے سوویت یونین کے ساتھ گہرے روابط تھے۔
دوسری طرف صرف نو ماہ میں وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے مسقط سے گوادر کی وہ طویل ساحلی پٹی خرید لی جو صدیوں قبل خان آف قلات نے مسقط کے معزول شہزادے کو بطور تحفہ دے دی تھی۔،یہ وہ کارنامہ تھا جس پر ریاست سال بھر جشن مناتی تو بھی کم تھا۔ لیکن صرف 30 دن بعد جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب نے ”نامعلوم وجوہ“ پر اس نابغہ روزگار وزیراعظم کو معزول کر دیا، ایوب خان نے ملک توڑنے کی بنیاد یوں رکھی کہ خود اپنے آئین کے خلاف ملک کو ایک سازشی اور نااہل جنرل کے حوالے کر دیا۔ بلوچ علیحدگی کی دبی دبی چنگاریوں کو دہکتے الاؤ میں تبدیل کرنے والا یہی شخص تھا۔ سردار نوروز وغیرہ کی انگریزوں سے جنگ کا تسلسل قیام پاکستان کے بعد کمزور پڑ چکا تھا۔ لیکن کم آبادی کے سبب بلوچستان توجہ حاصل نہ کر سکا۔
ایوب خان نے سردار نوروز کو قرآن گواہ بنا کر پہاڑوں سے مذاکرات کے لیے اتارا۔ پھر ان 7 بلوچوں کو پھانسی دے دی جن کا عام حالات میں نام تھا نہ شناخت۔ پھانسی پا کر یہ لوگ زندہ ہو گئے۔ سیاسی حکومت ہوتی تو یہ کچھ کبھی نہ ہوتا۔ تلخ نظم لکھنے، تند و تیز تقریر کرنے یا ناپسندیدہ تنظیم کا ذرا قرب حاصل کرنے پر افراد کو غائب کرنے کا جو چلن آج عام ہے، ان غیر آئینی و غیر قانونی حرکتوں کا آغاز ایوب خان نے کیا، یحییٰ خان اور جنرل جیلانی نے انہیں پروان چڑھایا۔ اور جنرل فیض حمید نے اس غیر ائینی اور غیر قانونی عادت بد کو پورے ملک میں پھیلا دیا۔ جنرل عاصم منیر قابل رحم سپہ سالار ہیں۔ انہیں کیا کرنا چاہیے، یہ اگلی دفعہ، انشاء اللہ۔