گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 79
ہماری اصل مشکل یہ ہے کہ اچھے استاد میسر نہیں آتے۔ اس لیے کہ تنخواہیں بہت کم ہیں اور جس قدر سکول تعمیر ہوتے ہیں۔ آبادی اس کے تناسب سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کوتاہیوں کی فوری اصلاح کرنا ہوگی۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا تو میں نے اس زمانہ میں ایک چھوٹی سی رقم خاندانی منصوبہ بندی کے لیے منظور کی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سرکاری رقم اس تحریک پر صرف کی گئی۔ میں اس سلسلہ میں اپنی اہلیہ کی خدمات کا اعتراف کرتا ہوں جو گزشتہ کئی سال سے خاندانی منصوبہ بندی کے شعبہ میں زبردست جدوجہد کررہی ہیں۔ آج خاندانی منصوبہ بندی نے سرکاری پالیسی کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور میں صرف یہ آرزو کرسکتا ہوں کہ یہ پالیسی کامیاب ہو ورنہ ہماری ترقی کے راستے میں زبردست رکاوٹیں پیدا ہوجائیں گی۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہمارے ملک میں ایک سب سے بڑی لعنت، جس نے انتظامیہ کو بری طرح پامال کررکھا ہے، سفارش ہے۔ میں نے اپنے دوران وزارت میں سفارش سے نپٹنے کا ایک طریقہ وضع کیا تھا۔ اگر اسمبلی کا کوئی رکن یا انتخابات کے سلسلہ میں کوئی بااثر آدمی یا وفد میرے پاس درخواست لے کر آتا تو میں کہہ دیتا کہ غور کروں گا۔اس کے بعد متعلقہ افراد کو انہیں لوگوں کی موجودگی میں بلوالیتا تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ میں ان سب کو بے وقوف نہیں بنا رہا ہوں لیکن ہر محکمہ کو اور انسپکٹر جنرل پولیس کو بھی میری ہدایت تھی کہ میں جو کچھ کہوں اسے سنا جائے لیکن اپنے ضمیر کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے۔ اگر وہ درخواست منصفانہ ہوتی تو میں اس کے مطابق کارروائی کو اپنا فرض خیال کرتا لیکن بعض درخواستوں کی پذیرائی مشکل ہوتی چنانچہ فائلیں متعلقہ محکموں کو واپس بھجوادی جاتیں اور دس صورتوں میں سے نو صورتوں میں ایسا ہوتا کہ درخواست دہندہ میرے پاس واپس نہ آتا۔ اگر کوئی آجاتا تو میں اسے دلائل سے قائل کردیتا تھا کہ آپ کا یہ رعایت طلب کرنا ملکی نقطہ نظر سے یا دوسرے متعلقہ افراد کے نقطہ نظر سے بے انصافی کے مترادف ہے۔ بیشتر لوگ معقول ہوتے ہیں اور انہیں دلائل سے قائل کیا جاسکتا ہے۔ نامعقول لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑدینا چاہیے۔ البتہ جب ایسی صورت حال درپیش ہو تو پارٹی کے چند سرکردہ ارکان کو اعتماد میں لے کر انہیں تمام واقعات سمجھا دینے چاہئیں تاکہ وہ ممبر یا بااثر آدمی خفگی اور بددلی کے عالم میں آپ کے خلاف رسوا کن سرگوشیوں کی مہم شروع کرے تو کچھ ممبر اس کے نامبارک ارادوں کی قلعی کھول دیں اور یہ بات دوسروں کے لئے بھی سبق آموز ثابت ہو۔
افریقہ اور ایشیا کے ملکوں میں جمہوریت کی کارکردگی کا سب سے اہم جز ایسے اداروں کا قیام ہے جہاں انتظامی امور کی تعلیم دی جائے، لوکل باڈی یا قانون ساز اسمبلی کے تمام ارکان پر ان سکولوں میں حاضری لازمی ہونی چاہیے، عوام پر حکمرانی ایک الگ فن ہے۔ چن کے مہاراجہ نے ایک بار اپنے میڈیکل آفیسر (ڈاکٹر ڈھنگڑا) کو اپنا وزیراعظم مقرر کردیا تھا۔ خیریت یہ ہوئی کہ انہوں نے وزیراعظم کو میڈیکل آفیسر نہیں بنادیا کیونکہ بعض آسودہ حال خاندانوں نے پارلیمنٹ کے توسط سے اعلیٰ مرتبہ اور وقار کے حصول کو اپنا پیشہ بنالیا ہے۔ وہ وہاں دولت کمانے کے لئے نہیں جاتے، کیونکہ دولت ان کے پاس پہلے ہی ہوتی ہے۔ آج ممکن ہے کہ بعض ارکان کے پاس دولت نہ ہو لیکن ارکان کو راہ راست پر رکھنے کے لئے ان کے پاس نظم و ضبط ہے، دیانت ہے اور جماعت کا مضبوط اور موثر نظام ہے۔ افریقہ اور ایشیا کے ملکوں میں ابھی کچھ عرصہ تک ایسی پارٹیاں وجود میں نہیں آئیں گی، جو اپنے ارکان کو سچائی کے راستے میں ثابت قدم رکھ سکیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگ قانون سازا سمبلیوں میں اس لئے جاتے ہیں کہ جلد از جلد دولت مند بن جائیں یا اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کے لیے ملازمتیں حاصل کرلیں۔ میرے ایک دوست تھے۔ انتخاب میں ان کی نوے فیصد کامیابی میرے تعاون کی مرہون منت تھی۔ جب میری وزارت بدل گئی تو وہ فوراً میرے مخالفوں سے جاملے۔ ایک دن ملاقات کے لئے آئے تو سخت شرمندہ اور معذرت خواہ تھے۔ انہوں نے میرے آگے ہاتھ جوڑ دئیے اور کہنے لگے ’’براہ کرم مجھے معاف کردیجئے۔ آپ کے مخالفوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میرے داماد کو ترقی دلا کر انسپکٹر پولیس بنوادیں گے۔ آخر آپ میرے دوست ہیں۔ دوست کو فائدہ پہنچے تو آپ کو خوشی ہونی چاہیے۔ اس خاندان کو میرے والد سے اور مجھ سے بھی خاصی مراعات حاصل تھیں اور اگرچہ ان کے داماد کی ترقی تو نہیں ہوئی لیکن حکومت نے ان کا ووٹ ضرورت حاصل کرلیا۔
میں دو سال تک وزیراعلیٰ رہا۔ اس عرصہ میں جماعت کے ارکان کی طرف سے مجھ پر مستقل دباؤ پڑتا رہا۔ یہ وہ ارکان تھے جن میں سے اکثر کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ میرے پیش رو مسٹر دولتانہ کے لائے ہوئے تھے۔ لیکن اگر خود مرکزی حکومت میرے خلاف معاندانہ رویہ اختیار نہ کرتی تو ان ارکان کی طرف سے مجھے یا میری وزارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ تھا۔ 1954ء اور 1955ء کے دوران میں مغربی پاکستان کے ادغام کی بابت اہم صلاح مشورے ہوئے تھے اور تجاویز بھی مرتب کی گئی تھیں۔ میں اس اتحاد کا حامی اس وقت بھی تھا اور آج بھی ہوں لیکن اس وقت میری رائے یہ تھی کہ اس اتحاد کی اساس انتظامی کے بجائے سیاسی ہونی چاہیے۔ اگر سیکٹریٹ کا اسارا کام لاہور میں مرکوز کردیا جاتا تو اس سے انتظامیہ کو جو زبردست مشکلات درپیش ہوسکتی تھیں ان کا تصور میرے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ میں اس تجویز کے حق میں تھا کہ علاقائی نوعیت کے جس قدر انتظامی اختیارات برقرار ہیں اتنا ہی اچھا ہوگا۔ صوبوں کے اتحاد کا بنیادی مقصد میرے ذہن میں یہ تھا کہ ایک گورنر کے تحت ایک ہی وزارت اور ایک ہی اسمبلی قائم ہو۔ البتہ میں یہ نہ چاہتا تھا کہ تمام انتظامی امور ایک ہی جگہ مرکوز کردئیے جائیں۔ میں نے اپنی تقریروں کے دوران میں لوگوں کے سوالوں کے جواب میں یہی بات کہی تھی تاہم میرا خیال ہے کہ یا تو میرے نظریات کو غلط طور پر سمجھا گیا یا دانستہ طور پر اس کی غلط توضیح کی گئی اور مجھے وحدت مغربی پاکستان کا مخالف ظاہر کیا گیا۔ بدقسمتی سے تعمیری مشوروں یا نکتہ چینی کو پاکستان کی کسی بھی حکومت نے قابل قبول نہیں سمجھا۔(جاری ہے )