اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 119
جب میں تل لگائے اشلوک کا پاٹھ کرتا سیناپتی کے خیمے میں داخل ہوا تو وہاں تینوں سپہ سالار شاندار سیناپتی رگھوناتھ سہائے کے قریب چاندی کی چوکیوں پر زرد اور بھگوتی پگڑیاں باندھے بڑی شان سے براجمان تھے۔ سیناپتی کے قدموں میں قالین پر اس کی ناگن بیوی چالکا اور اس کی ماں خوبصورت زرق برق ساڑھیوں میں ملبوس سرخ ٹیکے ماتھوں پر لگائے زیورات سے بنی سنوری بیٹھی تھیں۔ خیمے کی دیوار کے ساتھ ساتھ فوج کے نائب سپہ سالار بھی اسلحہ سے لیس چاق و چوبند کھڑے تھے۔
اب میں نے اپنا پاکھنڈ شروع کردیا۔ اور گیتا کے اشلوک بلند آواز میں پڑھنے شروع کردئیے۔ مادھوی میرے عقب میں ایک چوکی پر بیٹھی تھی۔ کچھ دیر اشلوکوں کا پاٹھ کرنے کے بعد میں نے آنکھیں کھول کر ہاتھ بلند کیا اور کہا
’’مقدس مشروب پلانا شروع کیا جائے۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 118 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رگھوناتھ سہائے کے اشارے سے چار خادم اس مٹکے کی طرف بڑھے جو مشروب سے بھرا ہوا تھا اور جس میں مَیں نے پہلے ہی سے زہریلی بوٹی کا سم قاتل ملا دیا تھا مشروب چاندی کے پیالوں میں بھر کر سب سے پہلے رگھوناتھ سہائے کو پیش کیا گیا۔ اس کے بعد سہائے کی بیوی چالکا او راس کی ساس نے وہ مشروب پیا، میں دیکھ رہا تھا کہ خیمے میں جتنے انسان موجود تھے وہ سب بڑے شوق سے مشروب پی رہے تھے۔ ایک پیالہ مجھے بھی پیش کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ مادھوی بھی پیالہ منہ سے لگائے مشروب پی رہی تھی۔ یہ کوئی تشویشناک بات نہیں تھی میں جانتا تھا کہ مشروب کا زہر اسے ہلاک نہیں کرے گا۔ وہ میری محسنہ تھی اور میں اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہلاک نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں نے اپنا پاکھنڈ جاری رکھا اور اشلوک پڑھتا رہا۔ پھر رگھوناتھ سہائے کو یقین دلانے کے لئے اٹھا اور ہون کنڈ کے سات چکر پورے کرنے کے بعد میں نے دوبار اس کی بیوی چالکا اور ساس کی طرف منہ کرکے پھونک ماری اور کہا کہ یہ مقدس منتر ہے اس کے اثر سے ان دونوں کی تمام بلائیں دور ہوجائیں گی۔ وقت گزرتا جارہا تھا ان سب کے ہلاک ہونے میں ڈیڑھ گھنٹی باقی رہ گیا تھا۔ میں نے اب بھجن گانے شروع کردئیے تاکہ وہ لوگ وہیں خیمے میں میری آنکھوں کے سامنے مریں اور مجھے ان کی موت کا یقین ہوجائے۔ ایک گھنٹہ گزرگیا۔ میں بھجن گاتے گاتے تھکا نہیں تھا مگر تنگ ضرور آگیا تھا لیکن یہ کام بہت ضروری تھا۔
آدھے گھنٹے بعد میں نے محسوس کیا کہ خیمے کے اندر میرے اور مادھوی کے علاوہ جتنے لوگ بھی بیٹھے تھے سب کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔ میں نے مادھوی سے کہا
’’ان پر مشروب کا نشہ ہے جو تھوڑی دیر بعد اترجائے گا۔‘‘
وہ حیران ہوکر بولی ’’مہاراج! مگر مجھ پر اس کا اثر نہیں ہوا۔‘‘
میں نے کہا ’’جس کا اعتقاد پکا ہو اس پر ان چیزوں کا اثر نہیں ہوا کرتا۔‘‘
سب سے پہلے خیمے میں کھڑے محافظ گرے۔ اس کے بعد مشروب پلانے والے خادم لڑکھڑائے۔ انہوں نے زیادہ مقدار میں مشروب پی لیا تھا۔ رگھوناتھ سہائے کی حالت بھی بگڑنے لگی تھی۔ اسے کچھ شک سا ہوا۔ اس نے تلوار کھینچ لی اور کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہوئے چلایا’’یہ کیا۔۔ کیا۔۔ ہورہا۔۔؟‘‘
اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکا اور مسند سے نیچے گرپڑا۔ اس کے دوسرے سپہ سالار اس کی طرف بڑھے تو وہ بھی لڑکھڑا گئے۔ سیناپتی کی بیوی چالکا اور ماں پہلے ہی ڈھیر ہوچکی تھیں۔ مادھوی پریشان ہوکر اٹھ کھڑی ہوئی اور گھبرا کر بولی ’’مہاراج! یہ کیا ہورگیا ہے؟‘‘
میں سینا پتی کی طرف بڑھا اور اس کی آنکھوں کو کھول کر دیکھا اس کی آنکھوں کا رنگ سفید ہوگیاتھا ۔میرا سم قاتل اپنا کام کرچکا تھا۔ یہی حال اس کے دوسرے سپہ سالاروں کا تھا۔ سب زہر کے اثرات سے ہلاک ہوچکے تھے۔ میں نے پلٹ کر مادھوی سے کہا
’’مادھوی جلدی سے اپنے خیمے میں جاؤ اور تیل کی وہ بوتل لے آؤ جس میں تیل نکال کر میں نے تمہیں پلایا تھا۔‘‘
مادھوی بے چاری کو کیا خبر تھی کہ میں کسی منصوبے پر عمل کررہا تھا۔ وہ اٹھی اور تیزی سے اپنے خیمے کی طرف بھاگی۔ اب میں ہندو لشکر کے مردہ سپہ سالاروں کے درمیان فاتح کی حیثیت سے تنہا کھڑ تھا۔ میں اپنے منصوبے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ میں نے اپنے منصوبے کے آخری مرحلے پر کام شروع کردیا۔ خیمے کے وسط میں آگ روشن تھی۔ میں نے پردے کھینچ کر پھاڑے اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ آگ ایک دم بھڑک اٹھی میں نے ان جلتے ہوئے پردوں کو خیمے کی دیواروں کی طرف اچھال دیا اور آگ آگ کا شور مچاتا باہر نکل آیا۔
خیمے سے دس قدم کے فاصلے پر کھڑے شاہی محافظوں نے خیمے کی دیواروں کو آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو وہ گھبرا کر آگ بجھانے کو بھاگے۔ وہ خیمہ جہاں پانی کے مٹکے ذخیرہ کرکے رکھے گئے تھے وہاں سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ جب تک سپاہی اس خیمے تک پہنچے، دوسرے خیموں نے بھی آگ پکڑلی۔ وہاں ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ میں موقع پاکر وہاں سے کھسک گیا۔ میں سپاہیوں کے خیموں کے درمیان سے گزرتے ہوئے واویلا کرتے ہوئے آگ لگ گئی سینا پتی اور دوسرے سالار جل کر بھسم ہوگئے کا شور مچاتا چلاجارہا تھا کہ ہندو لشکر میں بددلی اور افراتفری پھیل جائے اور میں اپنی اس سکیم میں کامیاب ہوا۔
لشکر میں کہرام سا مچ گیا جس سپاہی کو دیکھا وہ اس طرف بھاگا جارہا تھا جہاں خیموں کو آگ لگی ہوئی تھی اور شعلے بلند ہورہے تھے۔ میں بھی اس بھاگ دوڑ میں شامل ہوگیا اور لشکریوں کے خیموں سے نکل کر مغربی جنگل سے گزرتا کھلے میدان میں آگیا۔ یہاں سے مجھے قلعہ لاہور صاف نظر آرہاتھا۔ میں نے دیکھا کہ قلعے کی دیوار کے اوپر غزنوی لشکر تیار کھڑے ہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے قلعے کا پل کھائی پر ڈال کر قلعے کا دروازہ کھول دیا گیا اور مسلمانوں کا لشکر نعرے لگاتا تلواریں لہراتا سرپٹ گھوڑے دوڑاتا ہندوؤں کے خیموں پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ ہندو فوج میں پہلے ہی افراتفری مچی ہوئی تھی۔ اوپر سے مسلمانوں کی فوج کا حملہ ہوا تو انہوں نے پلٹ کر کچھ دیر مقابلہ کیا مگر پھر ان کے پاؤں اکھڑگئے۔
اسی رات میں قلعہ لاہور کے امیر اژگر خان کے کمرہ خاص میں اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ شمع دان روش تھے۔ امیر اژگر خان بہت خوش تھا۔ اس کی فوجوں نے ہندوؤں کے لشکر پر فتح پالی تھی۔ امیر اژگر خان نے میر اشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا
’’جابر خان ! اگرچہ تم میرے دشمن رہ چکے ہو۔ تم نے نہ جانے کتنے ڈاکے ڈالے اور لوگوں کو قتل کیا ہے مگر یہ ایک ایسا کام تم نے کیا ہے کہ تمہارے سارے گناہ دھل گئے ہیں۔ میں تمہیں اس شاندار کارکردگی پر انعام دینا چاہتا ہوں۔ بتاؤ کیا تم صوبہ ملتان کے صوبیدار بننا پسند کرو گے؟ ‘‘
میں نے اژگر خان کا شکریہ ادا کیا اور کہا’’اے عالی مرتبت امیر! مجھے کسی منصب کی خواہش نہیں۔ اب میرا دل اس دنیا کے جاہ و حشم سے بے زار ہوگیا ہے چاہتا ہوں باقی زندگی خلق خدا کی خدمت اور یاد الہٰی میں بسر کر دوں۔ اس لئے مجھے اجازت دو کہ میں یہاں سے چلا جاؤں۔‘‘
اژر خان نے تعجب کیا اوربولا ’’خان جابر! کیا تم سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کررہے ہو؟ کیا تم صوبیدار رہ کر خلق خدا کی خدمت اور خدا کی عبادت نہیں کرسکتے؟‘‘
میں نے کہا ’’دنیا کے جھمیلوں میں جکڑا ہوا آدمی پوری یکسوئی سے خدا کی عبادت نہیں کرسکتا۔ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے قلعے سے چلے جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ میں آپ کے لئے جو کرسکتا تھا کردیا ہے۔‘‘
اژگر خان ایک گہرا سانس بھر کر خاموش ہوگیا۔ پھر بولا
’’اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو میں تمہیں نہیں روک سکتا۔ رات آرام کر لو۔ صبح چلے جانا۔ مگر تم کس طرف جاؤ گے؟‘‘
میں نے کہا ’’فقیر کی کوئی خاص منزل نہیں ہوتی۔ ہاں ارادہ ہے کہ ملتان کی سیر کروں۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور صوفیائے کرام کے مزارات بھی ہیں کچھ دیر اس مقدس شہر میں رہ کر یاد الہٰی میں محو رہنا چاہتا ہوں۔‘‘(جاری ہے )