پڑھنے کا شوق ابا جی سے ورثہ میں ملا، ہمارے گھر میں رسائل باقائدگی سے آ تے، ابا جی کے پا س دنیا کے مشہور لوگوں کی آپ بیتیوں کی شاندار کو لیکشن تھی
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:59
والد، فارسی اور لارنس کالج؛
کورس کی کتابوں کے علاوہ پڑھنے کا شوق مجھے ابا جی سے ورثہ میں ملا۔ ہمارے گھر میں رسائل باقائدگی سے آ تے اور ابا جی کے پا س دنیا کے مشہور لوگوں کی آپ بیتیوں کی شاندار کو لیکشن تھی۔ یہ کتب بعد میں ناپید ہی ہو گئی تھیں۔وہ بڑی توجہ سے مطالعہ کرتے اور پڑھی ہو ئی چیز ان کے حافظہ میں قید ہو جاتی تھی۔ شاعری سے انہیں انس تھا اور کوئی بھی اچھا شعر وہ 2 بار سنتے تو انہیں یاد ہو جاتا۔ 3 بار میری والدہ سنتی تو انہیں بھی یاد ہو جاتا۔کمال کیمسٹری تھی ان دونوں کی۔ فارسی ابا جی نے فارسی زبان کے گرو گھنڈال”محترم پروفیسر کرامت حسین جعفری“سے پڑھی۔ اس کے بعد اقبالؒ اور سعدیؒ کوپڑھا اور خوب سمجھا۔ایک وقت تھا ابا جی کو علامہ اقبال ؒ کا آدھا فارسی کلام ازبر تھا اور بہت سا شیخ سعدی ؒ کا بھی۔ ایک روز جب میں سکینڈ ائیر کا طالب علم تھا ابا جی سے غالب کے ایک شعر کا مطلب پوچھا تھا تو انہوں نے اسی زمین میں استاد داغ اور میر تقی میر کے شعر بھی سنا ئے اور سمجھائے۔ ایک شعر کی وضاحت میں گھنٹہ بھر لگا توآئندہ میں نے ان سے کسی بھی شعر کا مطلب پو چھنے سے توبہ کر لی تھی۔ابا جی نے فرسٹ ائیر کا کچھ حصہ لارنس کالج مری میں بھی گزارا جب وہاں گنتی کے3 ہندوستانی طالب علم ہی تھے۔ ایک ہندو دوسرا ملتان کے ایک بڑے زمیندار کا بیٹا ہدایت اور تیسرے ابا جی۔ ابا جی بتاتے تھے؛”تمھارے دادا ایک بار مجھے ملنے لارنس کالج آئے۔ میرے سب دوستوں کو وہ مری lintots چائے پلانے لے گئے۔ اُس دور میں مال روڈ مری پر ایک ہی ریسٹورنٹ lintots اور چند دوکانیں تھیں جن میں ”ہوبسن شوز“ بھی تھا۔ lintotsسے میری جذباتی وابستگی آج بھی ہے۔ اپنے ہنی مون پر کالا باغ جاتے ہوئے میں نے اپنی بیگم کو lintots میں چائے پلائی تھی۔غالباً 1988 ء میں ابا جی، امی جی اور میں اسلام آباد بھائی جا ن شہزاد کے گھر آئے تو ابا جی کی فرمائش پر ہم سب مری آئے تھے۔ lintots میں چائے پیتے ابا جی نے اپنے والد کے ساتھ بتائے لمحوں کو اپنی آ نکھوں میں بسا یا تو بھولی یادوں نے ان کی آنکھیں پر نم کر دیں اور ہمیں اداس کر دیا تھا۔ لمحوں کے بعد بولے؛”یہاں میں چھیالیس(46)سال پہلے اپنے باپ کے ساتھ آ یا تھا۔ میرے ہم جماعتوں بھی ساتھ تھے اور بڑی پر تکلف چائے پلائی تھی میرے باپ نے ہمیں۔ جب منیجر کو پتہ چلا کہ میرے اباجی1942ء میں یہاں آیا کرتے تھے تو اصرار کے باوجود اس نے چائے کا بل لینے سے انکار کر دیا تھا۔lintots سے ہم لارنس کالج چلے آئے۔ کالج کا گیٹ بند تھا۔ بھائی جان شہزاد نے گیٹ انچارج کو بتایا؛”میرے ماموں یہاں 1942ء میں پڑھتے تھے۔ کالج دیکھنے آئے ہیں۔“ اجازت کے بعد کالج کا گیٹ کھول دیا گیا اور پرنسپل صاحب بھی ابا جی کو خوش آمدید کہنے چلے آئے۔ اس کے چہرے کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ ابا جی سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔ پرنسپل صاحب نے اُس دور کے مری اور کالج کے بارے پوچھا توابا جی نے بتایا؛”میں کالج کا سب سے کم عمر طالب علم تھا۔ اس دور کے انگریز پر نسپل کی میم مجھ سے بہت پیار کرتی اور بیٹوں کی طرح چاہتی تھی۔ ایک روز چرچ سروس کے دوران بوڑھا انگریز پادری جس کو الفاظ لمبے لمبے کرکے بولنے کی عادت تھی بولا؛ we all are sons of God۔ابا جی کہنے لگے میرے منہ سے اچانک ہی نکل گیا؛and you are the eldest چرچ میں آئے لوگ ہنس دئیے۔ پرنسپل نے مجھے گھر بلا لیا۔ میں گیا تو ان کی بیگم مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی؛son what happened during church service۔اباجی نے جو ہوا تھا بتا دیا اور میم کی سفارش پر ابا جی سزا سے بچ گئے تھے۔اس سفر میں امی جی بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ بڑے عرصہ بعد ان کی مری جانے خواہش پوری ہوئی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ابا جی اپنی مرسیڈیز خوداسلام آباد سے مری تک چلائی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔