پرنسپل میڈیکل کالج کی توہین

پرنسپل میڈیکل کالج کی توہین
پرنسپل میڈیکل کالج کی توہین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عمران حسن خان کی توہین ہوئی، ایک ناکردہ گناہ پر ان کو ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیا اور اگرچہ کچھ عرصے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا لیکن اس کا جو صدمہ ہوا وہ میں چھوڑ نہیں پایا۔ کوئی ایک ماہ قبل میں نے ایک کالم لکھا ”اسلام آباد میں بھی گل نشتر!“ جس میں، میں نے اپنے محبوب گلِ نشتر کے درخت کا ذکر کیا جسے میں نے پہلی مرتبہ ساہیوال میں دیکھا تھا اور بتایا تھا کہ اس سال جب میں پاکستان آؤں گا تو اپنے الما میٹر گورنمنٹ کالج ساہیوال کے ساتھ ساہیوال میڈیکل کالج جانے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں۔

ساہیوال کے گورنمنٹ کالج جیسا خوبصورت کالج تو میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا لیکن میں نے ساہیوال میڈیکل کالج کے چرچے سن رکھے ہیں اس لئے اسے دیکھنے کا بھی اشتیاق ہے۔ لیکن ان چرچوں کی اصل وجہ اس کے پرنسپل ڈاکٹر عمران حسن خان ہیں، گلاسگو، ایڈنبرگ اور لندن سے اعلیٰ طبی تعلیم حاصل کرنے والے ان قابل ڈاکٹر کا تعارف کرانے لگ گیا تو کالم میں جگہ نہیں بچے گی۔ وہ انسانی جسم میں غدودوں سے پیدا ہونے والی رطوبتوں اور ہارمونز کی پیچیدگیوں کے علاج میں بہت شہرت رکھتے ہیں جن میں لبلبے سے پیدا ہونے والی انسولین کی کمی کے باعث ذیابیطس کی بیماری بھی شامل ہے۔ میری ان سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی لیکن ان کا آن لائن انٹرویو کرنے اور ان سے ساہیوال جا کر ذاتی طور پر ملنے کا ارادہ بنایا ہوا تھا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ ان کے ساتھ ایسی ”بدتمیزی“ ہو گی اور اب تو مجھے لازمی طور پر اکتوبر میں جب پاکستان آؤں گا تو ذاتی طور پر ان سے اظہار ہمدردی کرنا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے مختصراً سن لیں کہ ان کے اور ان کے ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ اصل میں کیا ہوا اور کیا ان کا کوئی قصور بھی تھا یا وہ نادر شاہی اندھیر نگری کا فالتو میں نشانہ بن گئے۔ 9 جون کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال کے چلڈرن وارڈ میں ایئرکنڈیشنگ سسٹم میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑک اٹھی جس سے نومولود سمیت گیارہ بچوں کی افسوسناک موت واقع ہو گئی، یہ کس کی غفلت تھی یا اس کا کون ذمہ دار یا حتمی ذمہ دار تھا، اس کی بات بھی کرتے ہیں لیکن پہلے دیکھتے ہیں کہ واقعے کے بعد کیا ہوا۔ پنجاب کی چیف ایگزیکٹو جمعہ کے روز ہسپتال پہنچیں اور انتہائی غیر جمہوری نادر شاہی انداز میں ہسپتال کے تین سینئر ترین افسروں کے ساتھ اس سے منسلک میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عمران حسن خان کو انتہائی تضحیک کے ساتھ ہتھکڑیاں پہنا کر گرفتار کرنے اور ملازمتوں سے برطرف کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سانحے کی تفصیلی اور غیر جانبدارانہ انکوائری کروانے سے پہلے ہی دیگر عملے کے ساتھ ان چار سینئر ترین ڈاکٹروں کو رسوائی کے ساتھ گرفتار کرنے اور نوکریوں سے برطرف کرنے کا حکم کون سے قانونی یا آئینی اختیار کے تحت جاری کر دیا گیا۔ اصولی طور پر سب سے پہلے چیف ایگزیکٹو کو انتظامی سربراہ ہونے کی بناء پر یا کم از کم وزیر صحت کو مستعفی ہونے کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ صرف ایک صورت میں یہ دونوں مستعفی ہونے سے بچ سکتے تھے کہ وہ کوئی ایسے حکم کا ثبوت میڈیا کے سامنے پیش کرتے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد صوبے بھر کے ہسپتالوں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کا جائزہ لینے اور جہاں جہاں ساز و سامان میں نقص ملے ان کو تبدیل کرنے کا کہا ہو، اگر ایسا نہیں ہوا تو میرے خیال میں صوبے کے میڈیکل انتظام میں خرابی کی ذمہ داری ان دو اعلیٰ ترین سربراہوں پر عائد ہوتی ہے۔ 

میری اس تحریر کے وقت صوبے بھر میں ینگ ڈاکٹروں کی تنظیم کی طرف سے ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ سینئر ڈاکٹروں کی گرفتاری پر ہسپتال کے عملے نے جب احتجاج کیا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا جس سے دو درجن ڈاکٹر اور عملے کے تیس ارکان زخمی ہوئے جن میں سے تین ڈاکٹروں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ ہم نے اس سانحے پر چیف ایگزیکٹو اور وزیر صحت کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے جس میں پی ایم اے لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کا سیکریٹری ہیلتھ کو برطرف کرنے کا مطالبہ بھی شامل کر لیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اگر یہ اتنا بڑا سانحہ تھا جس پر ہسپتال کے اعلیٰ حکام کی گرفتاری ہی کرنا تھی تو چیف ایگزیکٹو پانچ دن بعد کیوں آئیں؟ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس ٹیکنیکل نقص پر کسی انجینئر یا سپلائی کرنے والے کنٹریکٹرز کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے معزز ڈاکٹروں کی توہین کرنے پر چیف ایگزیکٹو سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران خانیوال میں ایک نرس کی گرفتاری پر بھی نرسوں کا احتجاج جاری ہے۔ جناح ہسپتال کے ایک وارڈ ہیڈ ڈاکٹر شبیر چودھری نے ساہیوال کے سینئر ڈاکٹروں کی گرفتاری پر جو تبصرہ کیا ہے وہ بہت غور طلب ہے جو کہتے ہیں کہ سفید کوٹ پر حکومت نے جو سیاہ دھبہ لگایا ہے وہ آسانی سے مٹنے والا نہیں ہے۔

ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عمران احسن خان برطانیہ میں اس ملازمت سے کہیں زیادہ پونڈ کما سکتے تھے۔ ان کی قربانی کا صلہ دینے کی بجائے انہیں سرِ عام رسوا کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا ہے کسی کے پاس جواب۔!

مزید :

رائے -کالم -