اسرائیلی پولیس نے آسکر ایوارڈ یافتہ فلسطینی فلمساز حمدان بلال کو رہا کر دیا

اسرائیلی پولیس نے آسکر ایوارڈ یافتہ فلسطینی فلمساز حمدان بلال کو رہا کر دیا
اسرائیلی پولیس نے آسکر ایوارڈ یافتہ فلسطینی فلمساز حمدان بلال کو رہا کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تل ابیب (ڈیلی پاکستان آن لائن )اسرائیلی پولیس نے آسکر ایوارڈ یافتہ فلسطینی فلمساز حمدان بلال کو ایک روز قبل ’پتھر پھینکنے‘ کے الزام میں حراست میں لینے کے بعد رہا کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق آسکر ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’نو ادر لینڈ‘ میں ساتھ کام کرنے والے باسل ادرا نے رہائی کے بعد حمدان بلال کی ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں ان کی شرٹ پر خون کے دھبے تھے۔’اے ایف پی، ٹی وی‘ کی ایک ویڈیو میں بلال نے کہا کہ آسکر جیتنے کے بعد مجھے توقع نہیں تھی کہ مجھے اس طرح کے حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ ایک بہت مضبوط حملہ تھا اور اس کا مقصد قتل کرنا تھا۔اسرائیلی فوج کے مطابق مغربی کنارے کے جنوبی گاو¿ں سسیا میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تصادم کے دوران پتھر پھینکنے کے الزام میں 3 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی جانب سے دیے گئے انٹرویو کے برعکس فوجی بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’اس کے بعد ایک پرتشدد جھڑپ شروع ہو گئی جس میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان باہمی پتھراوبھی شامل تھا۔‘یہ گاو¿ں ہیبرون شہر کے جنوب میں بستیوں کے ایک گروپ، مسفر یاٹا کے قریب واقع ہے جہاں کوئی اور زمین قائم نہیں ہے۔اس سال کے اکیڈمی ایوارڈز کی بہترین دستاویزی فلم میں اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی کہانی بیان کی گئی، جس علاقے کو اسرائیل نے 1980 کی دہائی میں ایک ممنوعہ فوجی زون قرار دیا تھا۔
پولیس کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ بلال کو حراست میں لیا گیا، جب کہ بعد میں فورس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 3 افراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ان سے پتھراو¿، املاک کو نقصان پہنچانے اور علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے شبہ میں تفتیش کی جا رہی ہے۔بلال نے بتایا کہ ان پر ایک آباد کار نے حملہ کیا تھا، وہ پورے جسم پر مار رہا تھا اور اس کے ساتھ ایک سپاہی بھی مجھے مار رہا تھا۔
’نو اور لینڈ‘ کی ہدایت کاری کرنے والے یووال ابراہم نے کہا کہ بلال کے سر اور پیٹ میں چوٹیں آئی ہیں اور خون بہہ رہا تھا۔قبضے کے خلاف کام کرنے والے گروپ، سینٹر فار جیوش عدم تشدد کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوسیا میں اس وقت تشدد دیکھا، جب وہ آباد کاروں کے تشدد کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک امریکی کارکن جینا نے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنا پورا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کا تشدد باقاعدگی سے ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج کے پہنچنے سے پہلے 15 سے 20 آباد کاروں کے ایک گروپ نے کارکنوں کے ساتھ ساتھ گاو¿ں میں بلال کے گھر پر بھی حملہ کیا۔
غیر ملکی کارکن باقاعدگی سے مسافر یاتا کی کمیونٹیز میں رہتے ہیں تاکہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ رہ سکیں، کیوں کہ وہ اپنی فصلوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں یا اپنی بھیڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور آباد کاروں کے تشدد کے واقعات کو دستاویزی شکل دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔1967 سے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینی اور تقریباً 5 لاکھ اسرائیلی آباد ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی بستیوں میں رہتے ہیں۔

مزید :

عرب دنیا -