اُردُو سائنس کتاب گھر
پاکستان بھر کے پڑھے لکھے لوگ اُردو سائنس بورڈ کو اشفاق احمد کے حوالے سے جانتے ہیں۔وہ تقریباً پچیس برس تک اِس باوقار ادارے کے سربراہ رہے۔اُن کی نگرانی میں لاتعداد کتابیں چھپیں،جو آج بھی اِس ادارے کی شناخت اور سرمایہ ہیں۔اشفاق صاحب کے بعد بہت سے احباب اِس کے سربراہ بنے،لیکن اُن کو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ وہ کوئی نیا اور بڑا کام کر پاتے۔اُن کی نوکریاں حکومت کے تبدیل ہوتے ہی ایک فیکس آرڈر کے ذریعے سے ختم ہوتی رہیں۔البتہ خالد اقبال یاسر نے اپنے زمانے میں اُردو سائنس انسائیکلو پیڈیا مرتب کروایا۔
تقریباً ایک برس پہلے میرے پرانے دوست اور ادبیات اُردو کے نہایت سنجیدہ استاد پروفیسر ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ کو اِس ادارے کی سربراہی سونپی گئی تو بعض دیگر احباب کی طرح میرے دِل میں بھی کئی تحفظات تھے کہ کیا اُردو لکھنے اور پڑھانے والا یہ شخص اتنے بڑے ادارے کو سنبھال پائے گا؟کیا یہ اپنے پیشروؤں کی قائم کی ہوئی روایات کو زندہ رکھے گا اور کیا یہ کوئی نیا کام بھی کر پائے گا یا نہیں؟ میرے دِل میں یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں انتظامی معاملات میں اُلجھ کر میرا یہ دوست اپنی تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی اور تدریسی صلاحیتوں سے محروم نہ ہو جائے،لیکن قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے مشیر برائے وزیراعظم عرفان صدیقی کو داد دینا پڑے گی کہ اُردو سائنس بورڈ کی سربراہی کے لیے انھوں نے جس شخص کو چُنا تھا، اُس نے ایک سال کے اندر اندر ثابت کر دکھایا کہ فی الوقت اِس ادارے کے لیے اس سے زیادہ کوئی دوسرا شخص اہل نہیں۔سرکاری ادبی اداروں پر میری خاص نظر رہتی ہے اِس لیے مَیں اپنے کالموں میں صلہ و ستائش کی تمنا کیے بغیر،اُن کی کارکردگی کا احتساب کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ کے آنے سے پہلے اُردو سائنس بورڈ چند ملازمین کے روزگار کے وسیلے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ نہایت عمدہ کتابیں چھاپ کر مَنوں مٹی سے اَٹے گودام میں رکھ دی جاتی تھیں۔نکاسی اور فروخت کے لیے کوئی تردد نہیں کیا جاتا تھا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اِس ادارے سے یوں دور رکھا جاتا تھا جیسے دواؤں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے۔میرا خیال تھا کہ یہاں اب بھی یہی صورتِ حال ہو گی،لیکن بھلا ہو ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ کا،جنھوں نے چند روز پہلے اپنے چند ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ ساتھ مجھ حکیم کو بھی بُلا بھیجا۔ان کے پی آر او برادرم ذوالفقار حسین نے بتایا تھا کہ وزیراعظم کے مشیر (برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن) جناب عرفان صدیقی،اُردو سائنس بورڈ میں بنائے گئے ’’اُردو سائنس کتاب گھر‘‘ کا افتتاح کرنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔
مَیں مقررہ وقت پر پہنچا، چند لمحوں کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ اُردو کے سربراہ ڈاکٹر خالد سنجرانی اور پیدائشی پڑھے لکھے آدمی ڈاکٹر زاہد منیر عامر بھی پہنچ گئے۔اکرام چغتائی اور سٹی فورٹی ٹو والے اکمل سومرو بھی موجود تھے۔مَیں اپنی علمی کم مائیگی چھپانے کے لیے اپنے ساتھ اپنے رفیق کار ڈاکٹر طارق جاوید کو لے گیا تھا۔ جب عرفان صدیقی صاحب اُردو سائنس کتاب گھر کا افتتاح کر چکے تو کھلا کہ یہ دراصل بورڈ کا گودام تھا جسے ناصر عباس نیرّ نے اپنے ذوقِ نظر کے مطابق ایک شاندار کتاب گھر کی شکل دے دی ہے۔ ادارے کی مطبوعات نہایت سلیقے سے یوں رکھی گئی تھیں کہ جو کتابیں دیکھنے کے لیے آئے تھے وہ بھی خریدنے پر آمادہ ہو گئے۔ وارثِ سرہندی کی ’’قاموسِ مترادفات‘‘ کی کئی جلدیں میرے سامنے بِک گئیں۔اگر عرفان صدیقی صاحب اس ادارے کے مشیر نہ ہوتے تو شاید وہ بھی یہ کتاب خرید لیتے،کیونکہ جب مَیں نے انھیں الفاظ کا یہ خزانہ دکھایا تو بولے:’’ یار! یہ تو مَیں ایک عرصے سے تلاش کر رہا ہوں‘‘۔ چنانچہ ناصر عباس نیرّ نے انھیں پیش کر دی۔میرا اپنا خیال یہ ہے کہ عرفان صدیقی کو یہ کتاب قیمتاً خریدنا چاہیے تھی تاکہ وہاں موجود لوگوں میں بھی کتاب خریدنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔جب انھیں کتاب مفت میں دی گئی تو وہاں موجود میڈیا کے سارے لوگوں نے اُن کے جانے کے بعد مفت کتابیں طلب کرنا شروع کر دیں۔محترم صدیقی صاحب! عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ میڈیا کے سامنے جس طرح آپ سوچ سمجھ کر گفتگو کرتے ہیں اس طرح عمل بھی نپا تُلا ہونا چاہیے۔آپ کو بہت سے لوگ رول ماڈل بنا چکے ہیں اوروں کے بارے میں کیا کہوں؟ اپنے بارے میں عرض کرتا ہوں کہ آپ نے درس و تدریس کے میدان سے نکل کر جس طرح حرف و خیال کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور دانائی سے عزت اور عہدہ پایا،مجھے ہمیشہ لائقِ رشک بات لگتا ہے۔
اِس تقریب میں ناصر عباس نیرّ نے یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ عرفان صدیقی سے اُن کی ملاقات، اُردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہوئی۔ورنہ ہمار ے سابق اور موجودہ حکمرانوں کا رویہ تو یہ ہے کہ تھانے کا ایس ایچ او لگانا ہو تو اُس کا انٹرویو خود لیتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو عرفان صدیقی نے مُلک کے تمام ادبی و علمی اداروں میں جان ڈال دی ہے۔مریل گھوڑے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عرفان صدیقی ایک خوش ذوق شاعر بھی ہیں۔ جس دن،لاہور میں اُردو سائنس کتاب گھر کا افتتاح کر رہے تھے، اُسی دن اسلام آباد سے برادرم ارشد ملک صاحب نے مجھے اُن کی یہ غزل بھیجی۔ آپ بھی پڑھیے:
گو تمنائے جاں ضروری تھی
بُت کدے میں اَذاں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانتا تھا حدِ وکیل و دلیل
کوششِ رائیگاں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاتلوں سے تو خیر کیا ڈرتے
منصفوں سے اَماں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیست کیا تھی کہ ہر نفس کے لیے
مِنتِ دشمناں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذِن فریاد تھا مگر یہ جبیں
برسرِ آستاں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانتے تھے کہ کون کیا ہے مگر
خاطرِ دوستاں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زادِ راہ و سفر لُٹا کر بھی
مدحتِ رَہ زَناں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونٹ سِل بھی گئے، پہ کرتے رہے
بات جتنی جہاں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگ و آہن کے شہر میں عرفان
کیا یہ آہ و فغاں ضروری تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر مقطعے میں سخن گسترانہ بات ہوتی ہے، لیکن مَیں اپنے کالم کے آخر میں چند دِل خوش کُن باتیں درج کرنا چاہتا ہوں کہ پچھلے ایک سال کے عرصے میں اُردو سائنس بورڈ نے بیس کے قریب وہ کتابیں دوبارہ چھاپی ہیں جن کی مارکیٹ میں طلب تھی۔سائنس میگزین کی اشاعت کو باقاعدہ کیا گیا۔ خبر نامے کا اجرا کیا گیا۔ترجمے کی روایت کو مضبوط کرنے کے لیے ترجمہ ورک شاپ کا آغاز کیا گیا۔بٍُکس اون وہیلز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بورڈ کی کتابوں سے بھری گاڑی ہر روز کسی کالج یا یونیورسٹی میں جاتی ہے، جس سے ادارے کی آمدن بھی بڑھی ہے اور عام لوگوں تک اس کا نام بھی پہنچا ہے۔سائنسی موضوع پر بہترین کتاب لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ پہلا ایوارڈ جناب عالم بخشی کو اسی تقریب میں عرفان صدیقی نے اپنے ہاتھ سے پیش کیا۔