پریس کلب میں ایک جام ’اقلیتوں ‘کے نام

گلوبل پِنڈ( محمد نواز طاہر)ادب و ثقافت میں داﺅ پیچ، الفاظ کا استعمال اور ادائیگی ہی اصل (skill )فنکاری ہے ۔اس شعبے میں کچھ لوگ بہت ہی فنکار ہیں ۔یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ظریف کے حریف ہیں ، آدھے پونے منور ظریف ہیں ۔انہیں کم ہنسنے والی بات بھی ایسے انداز سے کرنے پر ملکہ حاصل ہے کہ سننے والا لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے ۔لاہور پریس کلب میں بھی ایسے روحیں پائی جاتی ہیں ۔ان میں سے ایک ندیم چشتی تو ”بدروح‘ ‘بن چکے ( اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے ۔۔آمین )، کچھ کے نام لئے تو ناراض ہوجائیں گے اور انضباطی ایکشن کا’ پانجا‘ بھی لگ سکتا ہے ۔ اقبال بخاری البتہ اس وہم ِ گستاخیِ تحریم سے پاک ہیں ۔
بنیادی بات ماحول کی ہوتی ہے ،برداشت کا ماحول! بدقسمتی سے یہ اب خواب بن چکا ہے ہر طرف بے امنی ، عدم برداشت، مایوسی ، نفسانفسی، ہیجان اور دہشت گردی ہے۔ایسے حالات میں چند قطرے برداشت مل جائے تو آب ِحیات اور سوسال پرانی شراب سے کم نہیں۔ شکر ہے کہ ’کئی سماجی پابندیوں ‘ کے باوجود یہ شراب لاہور پریس کلب میں اکثرو بیشتر مل جاتی ہے ۔جب ملتی ہے تو نشئی دیر تک ’جھولے لال، جھولے لال جھولے ‘کہتے ہیں ، بعض تو شراب آنے کی اطلاع پر بھی ’لیٹنیاں ‘لینا شروع کردیتے ہیں ۔
لیجئے! آج بھی شراب آگئی ۔۔۔محفل سج گئی۔ ۔۔ساقی نے بوتل تھام لی ۔ ۔ ۔اور ۔ ۔اقبال بخاری نے پہلا جام بڑھایا ۔۔۔ایک تھا بادشاہ ۔۔۔ وہ بہت غریب تھا۔۔۔سامعین ساکت۔تجسس بڑھا ۔۔۔اب تما م توجہ اقبال بخاری کے سنجیدہ چہرے پر ۔۔ ۔اچانک لبوں ، ہاتھوں ، شانوں اور آنکھوں نے رنگ بدلا ۔۔ بولے! لعنت ہے ایسے بادشاہ پر جو غریب تھا۔۔۔اندازِ بیان ایسا تھا کہ ان کی اپنی آواز سمیت ایسا قہقہہ لگا کہ پورا کلب گونج اٹھا۔ ٹیبل پر اخبارات ، ایش ٹرے ، سب زلزلے کی زد میں تھے ،لائبریری میں کوئی جاندار چیز نارمل نہیں رہی تھی ۔ ۔ ۔ ، لگ رہا تھا مدتوں سے پیاسوں نے اچانک بوتلوں کے ”ڈک“ کھول لئے ہیں ، دھت سردار ’ارتھی‘ پھینک کر بیساکھی میں’ چانگریں ‘ مار رہے ہیں ۔۔۔ ہونہہ! بادشا تھا اور غریب ؟ ایتھو پیا کا بادشاہ بھی غریب نہیں ہوتا ۔۔۔انہوں نے گرہ لگائی ،یہ بات کرنے والے’ ’ماں کے ۔۔۔ ‘‘کوشوٹ کردینا چاہئے ۔ ۔ ۔منافقت کرتا ہے۔ بھلا ۔ ۔بادشاہ بھی غریب تھا ، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے فوج مارشل لاءلگا کر کہے کہ جمہوریت آگئی ہے ۔ ۔ ۔میں بادشاہ ہوتا تو غریب کیسے ہوتا؟´ایسی بادشاہت پر لعنت بھیجتا۔۔۔میں بادشا ہ ہوتا تو۔۔۔ایک ساتھی نے اقبال بخاری کے پرانے جملے ’میں چیف منسٹر ہوتا تو ندا ممتاز میری بانہوں میں ہوتی ‘ کی گرہ لگائی تو اانہوں نے ٹوک دیا۔ اوں ہونہہ !ندا ممتاز اب آﺅٹ ڈیٹڈ ہوگئی ہے ،اب تو میڈونا اور انجیلنا جولی بھی سب سٹینڈرڈ ہوگئی ہیں ۔۔اور ظلِ الٰہی تو ابھی ویسے کے ویسے ہی جواں ہیں ۔۔۔اب کے بھی جام ہلکا نہیں تھا ۔۔ ۔ اسی پرکیف ماحول میں اختر حیات (مرحوم )مسکراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتے انکل جیدی(اطہرشاہ) سی شکل بنائے داخل ہوتے ہیں ۔۔۔ظہیر کاشمیری کے پورٹریٹ کو محفوظ کرنے والے شیشے سے ری فلیکٹ ہوتے سائے پر اقبال بخاری کی نظر پڑتی ہے۔۔ایک آنکھ کو ہلکی سی جنبش اور کندھے کو ذرا خم دے کر بولتے ہیں ۔۔۔۔لو ۔۔۔ آگئے بادشاہ بھی ۔ہا ہا ہا ۔۔۔بادشاہ اور بڑا غریب ۔۔۔خاک کا بادشاہ تھا ، ساتھ ہی انہوں نے اخترحیات سے استفسار بھی کیا کہ آپ نے ایسا بادشاہ دیکھا ہے تو جواب ملا، وہ اس وقت پریس کلب کے’ پاگل خا نے‘ میں رونق افروز اور محفل سجائے بیٹھا ہے۔دھت سامعین کی توجہ اختر حیات پر مرکوز ہوئی تو ایک جام انہوں نے بھی محفل کی نذر کردیا۔۔۔پیٹوں کے جھٹکے، برانچ لائن کی ٹرین کو لگنے والے بریک کی طرح رکے تو عین اسی وقت شیخ آفتاب بھی ایک ہاتھ جیب اور دوسرا عینک پر رکھے خلافِ معمول آدھمکے،ماحول دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں بولے’ ’اوئے ۔۔۔دیو‘شرابی ہوگئے او“؟ بیک وقت کئی آوازیں آئیں، نہیں! ابھی منگوائی ہوئی ہے۔قہقہہ لگا کر بولے ’بخاری صاحب اے مراثیاں دا ڈیراہ تسی سجایا اے‘ جواب ملا نہیں ، میں نے بادشاہ کی محفل سجائی تھی ،بس بادشاہ ہی غریب تھاتو بولے نہیں غریب نہیں شیخ ہوگا ۔۔مامے خاں کبھی بادشاہ بھی غریب ہوئے ہیں ؟تب اختر حیات نے مداخلت کی ۔بادشاہ اصل میں غریب نہیں تھا،اس کی رعایا میں صحافیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی جنہیں تنخواہ نہیں ملتی تھی ، وہ ویج ایوارڈ دلانے کے مطالبات پر بھی کان نہیں دھرتا تھا اور اپنی رنگینیوں میں مست رہتا تھا، اسلئے وہ بددعا سے غریب ہوگیا ۔اب بڑا قہقہہ تو لگا لیکن کچھ لوگوں کو’معرفت‘ سمجھ میں آگئی تو سرداروں کانشہ بھی ہرن ہوگیا۔شکوہ کرتے ہوئے بولے ۔۔۔ڈاکٹر اختر حیات جی ! تنخواہ نہ ملنے کی ٹینشن سے چنگی بھلی جان چھوٹی تھی ،آپ نے پھر یاد دلادیا کہ آج جنوری کی 150تاریخ ہوگئی ہے ۔تو اختر حیات بولے ،اوئے پاگلو! ٹینشن اس طرح نہیں جدوجہد سے دور ہوتی ہے ، نثار عثمانی اور منہاج برنا جیسے ہمارے بزرگوں نے ٹینشن کا علاج یہی بتایا ہے ۔اقبال بخاری کا چہرہ کھلا،ہاتھ ہِلا توسامعین سمجھے کہ اب اگلا جام آنے والا ہے ۔،انہوں نے ماحول برقراررکھا اور بولے۔۔۔اختر حیات نے پینشن کی عمر میں بھی ٹینشن دیدی ہے تو کیا کریں ، ہم سب وہی غریب بادشاہ ہیں ۔اختر حیات نے تصحیح کی کہ بادشاہ اگر عادل ہوتو وہ خود سے زیادہ رعایا کو امیر بناتا ہے ،جو بادشاہ رعایا کے بجائے خود امیر سے امیر بنتا ہے وہ ایک دن بہت غریب ہوجاتا ہے ، اس کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا ، ایسے بادشاہ سے ہم فقیر زیادہ بڑے بادشاہ ہیں جو کم از کم ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہیں۔ویسے بھی اچھابادشاہ وہی ہوتا ہے جو غریب تو ہو صرف ’شریف‘ نہ ہو ۔ ۔ ۔