وزیر اعلیٰ پنجاب کو پولیس میں پائی جانیوالی  خرابیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے 

  وزیر اعلیٰ پنجاب کو پولیس میں پائی جانیوالی  خرابیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے 
  وزیر اعلیٰ پنجاب کو پولیس میں پائی جانیوالی  خرابیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ کئی ہفتوں سے لاہور پولیس کے سربراہ کی بطور آئی جی پولیس پنجاب کی یقینی تعیناتی کی خبریں بھی کافی سرگرم رہیں اور سوشل میڈیا نے بھی ان خبروں کو تقویت بخشی۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ سب کچھ تبدیل ہوگیا۔وزیر اعلی پنجاب کی”کی پرفارمننس میٹنگ“میں لاہور پولیس کے سربراہ کو بولنا مہنگا پڑ گیا۔آئی جی شپ ملنے کی بجائے سی سی پی او شپ بھی خطرے کا شکار دکھائی دینے لگی۔ لاہور پولیس کے سربراہ کو پہلے ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ تعینات ہونے کی آفر کردی گی،انکار پر وہاں بھی ایڈیشنل آئی جی راو ¿ عبدالکریم کو تعیناتی دیدی گئی۔زرائع نے دعوی کیا ہے کہ لاہور پولیس کے سربراہ اگر چاہیں تو اب انہیں ڈی جی ایف آئی تعیناتی کی آفر دیدی گئی ہے۔لیکن وہ ایسی ویسی کوئی بھی تعیناتی لینے کو تیار نہیں ہیں۔ان کا ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ وہ آئی جی پولیس پنجاب لگنا چاہتے ہیں کونکہ اس سیٹ کے لیے ان سے وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ان کی یہ خواہش تو پوری نہیں ہوسکی البتہ اس خواہش نے آئی جی پولیس اور ان کے درمیان ایک اچھی ہم آہنگی کو ایک تنازعہ کی شکل دیدی ہے۔کہ آئی جی پولیس نے لاہور پولیس سے اپنے دست شفقت کا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔جس سے لاہور پولیس کے اختیارات میں بھی خاصی کمی کردی گئی ہے اور ان کا سب سے ایکٹو ونگ آرگنائزڈ کرائم یونٹ بھی ان سے چھین لیا گیا ہے دوبڑوں کی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان ڈی آئی جی عمران کشور کا ہوا ہے کہ وہ نہ تو ڈی آئی جی آپریشنز لاہور بن سکے اور آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی تعیناتی سے بھی انہیں ہاتھ دھونا پڑا جوکہ یقیناً ان کے ساتھ اور لاہور پولیس کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ اداروں کی کارکردگی ہمیشہ اس وقت تباہ و برباد ہو جاتی ہے جب ادارے حد سے زیادہ سیاست ذدہ کردیے جاتے ہیں۔یہ ہی حال آج پنجاب پولیس کا ہے۔ڈی آئی جی عمران کشور جنہوں نے انوسٹی گیشن میں رہتے ہوئے سانحہ 9 مئی کے ملذمان کے مقدمات میں حکومت کو سب سے زیادہ سپورٹ کیا۔انوسٹی گیشن کی خراب اور ناقص کارکردگی کو معیاری بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ان کی بہتر اور معیاری کارکردگی کے پیش نظر ہی انہیں آرگنائزڈ کرائم یونٹ میں بطور سربراہ تعینات کیا گیا۔اس تعیناتی کی دوران انہوں نے مثالی کارکردگی دکھائی جس سے لاہور پولیس حکومت کی گڈ گورننس کا باعث بنی۔اسی دوران ڈی آئی جی عمران کشور کو فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں سی پی او شپ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا جبکہ ڈی آئی جی رانا ایاز سلیم کو لاہور میں ڈی آئی جی آپریشنز تعینات کرنے پر غور کیا گیا۔پھر اس فیصلے کو موخر کرکے ڈی آئی جی عمران کشور کو لاہور میں بطور ڈی آئی جی آپریشنز لگانے پر غور کیا گیا اور لاہور پولیس کے سربراہ کو آئی جی پولیس پنجاب بنانے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔لیکن یہ سبھی فیصلے اچانک کیوں تبدیل کردیے گئے۔لاہور پولیس کی کارکردگی کا دارو مدار ہمیشہ سے سی آئی اے ونگ پر ہی منحصر رہا ہے آخر یہ ونگ لاہور پولیس سے کیوں چھین لیا گیا ہے۔یہ ونگ ایک ایسے پولیس آفیسر کی تحویل میں دیا گیا ہے جوکہ لاہور پولیس کے سربراہ سے بہت جونئیر آفیسر ہے اور جس پولیس آفیسر کو دیا گیا ہے پہلے تو وہ اس ونگ کو لینے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کیونکہ ان کی بطور ڈی جی اینٹی کرپشن کی سیٹ اس سے کہیں زیادہ پرٹوکول اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔ پھر انہوں نے لاہور پولیس کے ونگ کو نہ چھیڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔صوبہ بھر میں اس ونگ کے حوالے سے جو فیصلہ طے پایا تھا اس فیصلے کے مطابق لاہور میں یہ شعبہ جوں کا توں کام کرتا رہے گا البتہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں اس شعبے کی کارکردگی میں بہتری لانے اور وہاں جرائم کی شرح پر قابو پانے کے لیے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی)قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس کا سربراہ ڈی آئی جی سہیل ظفر چٹھہ کو ہی بطور ایڈیشنل آئی جی لگانے کا فیصلہ تو کرلیا گیا تھا مگر ان میں لاہور شامل نہیں تھا۔۔آئی جی پولیس اور پنجاب حکومت کے مبینہ گٹھ جوڑ نے پولیس میں تفریق پیدا کردی ہے۔ زرائع نے دعوی کیا ہے کہ اس گٹھ جوڑ سے آئی جی پولیس پنجاب نے مبینہ طور پر فی الحال اپنی سیٹ تو پکی کرلی ہے مگر لاہور پولیس سے عدم تعاون سے ادارہ کمزور ہو جائے گا۔ لاہور جو پنجاب پولیس کا چہرہ اور صوبہ بھر کی عکاسی پیش کرتا ہے یہاں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہمیشہ پولیس کی نااہلی تصورکی جاتی ہے اور بہتر اقدامات حکومت کی گڈ گورننس کا باعث بنتے ہیں۔وزیر اعلی پنجاب اگر صوبہ بھر کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ قائم کر کے صوبہ بھر سے جرائم کی شرح میں کمی لانا چاہتی ہیں تو انہیں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) میں ایک ایسے تجربہ کار آفیسر کو ہی تعینات کرنا چاہیے جواس شعبے کو بہتر چلانے کا تجربہ رکھتا ہو تو اس کے لیے پنجاب حکومت کے پاس ڈی آئی جی عمران کشور سے زیادہ موزوں کو ئی دیگر آفیسر نہیں ہے۔ آئی جی پولیس پنجاب کو چاہیے کہ وہ وزیر اعلی پنجاب کو لاہور پولیس کو مضبوط کرنے پر راضی کریں اور لاہور پولیس کا سیٹ اپ لاہور پولیس کی مرضی سے تشکیل دینے میں ان کی معاونت کریں جبکہ وزیر اعلی پنجاب کو چاہیے کہ لاہور شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے پولیس میں پائی جانیوالی خرابیوں کا فوری خاتمہ کریں۔سابق ادوار میں بھی سابق آئی جی پولیس شعیب دستگیر اور سابق مرحوم سی سی پی او عمر شیخ کے درمیان ہونیوالی لڑائی سے بھی پولیس کا مورال ڈاو ¿ن ہوا جوکہ حکومت کی بیڈ گورننس کا باعث بنا تھا ایک بار پھر پنجاب پولیس سیاست کا شکار دکھائی دے رہی ہے جس سے پولیس کا مورال بھی ڈاو ¿ن ہو گا اور حکومت کی ساکھ بھی خراب ہو گی۔ لاہور پولیس کے سربراہ کو بااختیار بنائے بغیر لاہور کو امن کا گہوارہ بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -