لاہورمیں جرائم کی شرح میں کمی کیسے واقع ہوئی؟

  لاہورمیں جرائم کی شرح میں کمی کیسے واقع ہوئی؟
  لاہورمیں جرائم کی شرح میں کمی کیسے واقع ہوئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب معاشرے میں غربت، بے روزگاری، رشوت ستانی،اقربا پروری، ناانصافی بڑھ جائے تو افراد حسد،تعصب، حرص و ہوس جیسی کمزوریوں اوراخلاقی گراوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ معاشرے میں نفرت، غم وغصہ اور مایوسی جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں افراتفری اور نفسانفسی پر وان چڑھتی ہے اور لوگ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اسی طرح جب سیاست دان اور حکمران اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے قانون سازی کریں اور سزا و جزا میں دہرا معیار اپنایا جائے، اختیارات کا ناجائز استعمال ہونے لگے تو لوگوں میں احساسِ محرومی جنم لیتا ہے اور جرم کو پنپنے کا موقع مل جاتاہے۔ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی بالادستی یقینی اورعدلیہ کی آزادی کااحترام کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ معاشرہ افراتفری، انتشار کا شکار ہے۔اگر ہم معمولی اور سنگین نوعیت کے جرائم، پاکستان کے قانون ساز اداروں، پولیس اور عدلیہ کی بات کریں توسب سے پہلے جو مسئلہ سامنے آتا ہے،و ہ ہے سیاسی مفاد کی تکمیل اورمخصوص طبقے کوفائدہ دینے کے لیے قوانین کا نفاذجس کا بوجھ عدالتی نظام پر پڑتا ہے اور عدالتیں اپنے اصل مقاصد سے کنارہ کشی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔پچھلے 77 سال کے دوران مفکرین، دانش وروں اور قانون دانوں نے جرم و سزا سے متعلق ٹھوس اور جامع تجاویز، سفارشات بھی پیش کیں، مگر جرائم میں کمی نہ ہوسکی اور یہ بڑھتے ہی چلے گئے،آج ہمار اپولیس سسٹم اور عدالتی نظام اس کے بوجھ تلے دباہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی شرح پر قابو پانے کے لیے کبھی کسی نے منصوبہ بندی سے کام نہیں لیا یہ ہی وجہ ہے کہ امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور امن قائم کرنے والے اداروں بالخصوص پنجاب پولیس سے عوام کا اعتماد بھی اٹھتا چلا گیا۔صوبائی دارالخلافہ جہاں عدالت عالیہ، وزیر اعلیٰ،گورنر،چیف سیکرٹری،آئی جی پولیس،سی سی پی او،سیف سٹی،کیبنٹ ڈویژن،صوبائی محتسب اعلیٰ، حساس اداروں سمیت خفیہ مانیٹرنگ پر مامور دیگر کئی اہم ادارے بھی موجود ہیں۔ان اداروں کی موجودگی کے باوجود بہت کم کمانڈر کو یہ اعزاز حاصل ہو گا کہ شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ان کی کاوشیں رنگ لائی ہوں۔یہ اعزازموجودہ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایسی حکمت عملی مرتب کی ہے کہ آج صوبائی دارالحکومت میں جرائم کی شرح تین سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے جبکہ مسلسل چوتھے ماہ بھی وارداتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔لاہور پولیس کے آپریشن ونگ نے 15 کال ڈیٹا کی تقابلی رپورٹ عام کر دی جس کے مطابق نومبر میں جرائم کی شرح میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔گزشتہ برس نومبرکے مقابلے رابری کی وارداتوں میں 62فیصد، ڈکیتی میں 60 فیصد کمی ہوئی ہے۔نومبر میں سنگین جرائم میں 47فیصد، چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں 45فیصد کمی، موٹر سائیکل چوری میں 39، موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 37 فیصد کمی جبکہ دیگر گاڑیاں چوری کی وارداتیں بھی 25 فیصد کم واقع ہوئیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے مطابق صوبائی دارلحکومت میں جرائم میں کمی پچھلے پانچ ماہ سے جاری ہے۔فیصل کامران کے مطابق 36 ہاٹ سپاٹ ایریاز کی نشاندہی کر کے اینٹی کرائم سٹریٹیجی بنائی گئی۔ ہاٹ سپاٹ ایریاز پر پولیس کی توجہ مرکوز کروائی گئی یہ ہی وجہ ہے کہ آج لاہور میں الحمدللہ جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کا سہرا لاہور پولیس کی پوری ٹیم بالخصوص کے سر ہے اور اس میں میرے افسران آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور،سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن زیشان اصغر،ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور،ایس ایس پی محمد نوید،ایس ایس پی تصور اقبال اور شہر بھر کے تمام ایس پیز کی محنت اور کاوشیں شامل ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق میرٹ پر تعیناتیوں سے بہترین نتائج مل رہے ہیں۔ لاہور آپریشنز پولیس نے 200گینگز کے 443ممبران بھی گرفتار کئے ہیں جن سے ڈکیتی، راہزنی و چوری میں لوٹا گیا 9کروڑ15لاکھ روپے کا مال مسروقہ بھی برآمد کیا ہے۔ دوران تفتیش ڈکیتی و چور ی کی 1058 سابقہ وارداتوں کا سراغ بھی لگایا ہے۔چوری و چھینی گئی 467 موٹر سائیکلیں، 07 کاریں برآمد کی گئیں۔ 08رکشے، 293موبائل فونز، 5 کلاشنکوف، 34 رائفلز و بندوقیں، 472پسٹلز قبضہ میں لیے گئے۔ 1806اشتہاروں و عادی مجرمان اور909عدالتی مفروران کو گرفتار کیا گیا،785کلو گرام چرس،3 کلوہیروئن، 8 کلو گرام آئس،5051لیٹر شراب بھی پکڑی گئی، بداخلاقی کے واقعات میں ملوث 41 ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا۔ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے جرائم کی شرح میں کمی کے حوالے سے بتایا ہے جرائم کو قابو کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک تو جن مقامات پر جرائم کی شرح زیادہ ہے وہاں ہاٹ سپاٹ پوائنٹ بنا کر ناکے لگائے گئے ہیں اور شہر میں پولیس پیٹرولنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔شہریوں کی جانب سے کسی بھی واردات کے دوران بروقت پولیس کو اطلاع دینے سے بھی کئی واقعات روکے گئے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے دن رات ڈیوٹی کے دوران جان پر کھیل کر جرم روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس معاملے میں ہیومن انٹیلی جنس میں اضافہ اور افسران کی میرٹ پر تعیناتی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ڈی آئی جی نے کہا حکومت کے ویژن محفوظ سے محفوظ تر پنجاب پرمنظم اور مربوط پلان سے عمل کر رہے ہیں اورلاہور پولیس شہریوں کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جرائم کی روک تھام مجرم کو قانون کی گرفت میں لا کر ہی ممکن ہے۔اس کے لیے مسلسل جان پر کھیل کر دن رات ڈیوٹی کرنے والے اہلکار شاباش کے مستحق ہیں۔فیصل کامران کے مطابق شہریوں کے تعاون اور بروقت اطلاع نے جرائم کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لاہور پولیس وزیر اعلی پنجاب کے ویژن میرا پنجاب محفوظ سے محفوظ تر پر عمل پیرا ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -